ابن ابی حاتم ’’الجرح والتعدیل‘‘ میں فرماتے ہیں ۔ میرے والد نے کہا دراوردی نے اس سے منکر احادیث نقل کی ہیں اور یہ با اعتماد نہیں کہ اس کی حدیث لکھی جائے۔ ابو زرعہ نے کہا لا بَأْسَ بِه[1] اور حافظ ابن حجر تقریب میں فرماتے ہیں صدوق بہم اور تہذیب التہذیب میں ہے امام مالک اس پر اعتماد نہیں کرتے تھے۔ روایت (۳): حافظ ابن حجر فتح الباری میں ایک اثر لائے ہیں فرماتے ہیں : رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ مِنْ وَّجْهٍ اٰخَرَ (اَيْ مِنْ طَرِيْقِ دَاودَ بْنِ قَيْسٍ) عَنْ مُّحَمَّدِ بْنِ يُوْسُفَ فَقَالَ اِحْدٰي وَعِشْرِيْنَ اور عبد الرزاق نے اسے ايك دوسرے طريق سے روايت کیا ہے یعنی داؤد ابن قیس کے طریق سے جو محمد بن یوسف سے روایت کرتے ہیں : فرمایا: اکیس۔ یہ اثر بجائے اس کے کہ حنفیہ اس سے دلیل پکڑیں بلکہ ان کے مخالف ہے کیونکہ وہ ایک رکعت وتر کے قائل نہیں ۔ شیخ ناصر الدین البانی فرماتے ہیں ۔ اس اثر میں کلام دو طرح سے ہے ایک تو یہ اثر گیارہ رکعت والے صحیح اثر کے مخالف ہے (شاذ ہونے کی وجہ سے ضعیف ہوا) دوسرا سبب اس میں بذات خود عبد الرزاق ہے جس کے متعلق تقریب میں ہے وقد کان عمی فی آخر عمرہ فتغیر آخری عمر میں آنکھوں کی بینائی زائل ہونے کے بعد حافظہ جاتا رہاتھا۔ |