اور حافظ ابو عمرو بن الصلاح نے علوم الحديث ص ۳۵۵ ميں ان كا شمار مختلطین ميں كيا ہے اور امام نسائی فرماتے ہیں ۔ نُظِرَ لِمَنْ كَتَبَ عَنْهُ بِاٰخِرَةً جس نے عبد الرزاق سے آخری عمر میں لکھا ہے اس کی اچھی طرح جانچ پڑتال کی جائے۔ مختلطین كے متعلق علماء اصول الحدیث کا قانون یہ ہے کہ جس نے اختلاط سے پہلے ان سے حدیث لی قبول کی جائے گی اور جس نے اختلاط کے بعد لی رد کر دی جائے گی۔ اگر معلوم نہ ہو سکے کہ آیا یہ روایت قبل از اختلاط ہے یا بعدِ از اختلاط تو پھر بھی رد کر دی جائے گی۔ اور زیر بحث اثر اسی قبیل سے ہے۔ وَاللهُ تَعَالٰي اَعْلَمُ روایت (۴): سنن کبری بیہقی جلد ۲ ص ۴۹۶ میں یزید بن خصیفہ کے طریق سے ہے۔ عَنِ السَّائِبِ ابْنِ يَزِيْدَ قَالَ: كَانُوْا يَقُوْمُوْنَ عَلٰي عَھْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ (رَضِيَ اللهُ عَنْهُ) فِيْ شَھْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِيْنَ رَكْعَةً قَالَ: وَكَانُوْا يَقْرَءُوْنَ بِالْمِئِيْنَ وَاكَانُوْا يَتَوَكَّؤنَ عَلٰي عِصِيِّھِمْ فِيْ عَھْدِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ (رَضِيَ اللهُ عَنْهُ) مِنْ شِدَّةِ الْقِيَامِ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت ميں لوگ ماه رمضان ميں بيس ركعت پڑھا کرتے تھے۔ راوی کا بیان ہے کہ مئین سورتیں پڑھتے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں شدت قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے۔ یہ اثر کئی وجہ سے ضعیف ہے۔ الف۔ اس کی سند میں ابو عبد اللہ محمد بن حسین بن فنجویہ دینوری ہے اس کی ثقاہت ثابت نہیں ہو سکی فَمَنِ ادَّعٰي الصِّحَّةَ فَعَلَيْهِ بِالدَّلِيْلِ۔ ب۔ دوسرے راوي يزيد بن خصیفہ كو امام احمد نے منكر الحديث کہا ہے جس كا معنی امام احمد كے نزديك یہ ہے کہ وہ راوی غریب احادیث بیان کرتا ہو۔ اس حدیث میں یزیداپنے سے اوثق (محمد بن یوسف) کی مخالفت کرتا ہے جس نے عمر رضی اللہ عنہ بن الخطاب سے صحیح سند سے گیارہ رکعات بیان |