خلاصہ کلام یہ ہے کہ مذکورہ بالا روایت قابل احتجاج و اعتبار نہیں ہے اس لئے حضرت عائشہ اور جابر کی روایت پر عمل کیا جائے گا جس میں آٹھ رکعت کا ذکر ہے۔ حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) سے بیس تراویح ثابت نہیں اور نہ ہی ان کے دورِ خلافت میں یہ صحابہ کا معمول رہا بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سب کو جمع کر کے ابی بن کعب اور تمیم داری کو گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دیا تھا جیسا کہ موطا امام مالک[1] میں ہے۔ عَنْ مُّحَمَدَّ بْنِ يُوْسُفَ عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيْدَ اَنَّه قَالَ اَمَرَ عُمَرُبْنُ الْخَطَّابِ اُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ وَّتَمِيْمًا الدَّارِيَّ اَنْ يَّقُوْمَا لِلنَّاسِ بِاحْدٰي عَشَرَةَ َكْعَةً قَالَ وَقَدْ كَانَ الْقَارِيُ يَقْرَءُ بِالْمِئِيْنَ حَتّٰي كُنَّا نَعْتَمِدُ عَلٰي الْعِصِيِّ مِنْ طُوْلِ الْقِيَامِ وَمَا كُنَّا نَنْصَرِ اِلَّا فِيْ فُزُوْعِ الْفَجْرِ۔ سائب بن یزید فرماتے ہیں خلیفۃ المسلمین حضرت عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو حکم دیا تھا کہ لوگوں کو گیارہ رکعت پڑھایا کریں ۔ راوی کا بیان ہے کہ قاری مئین سورتیں پڑھتا یہاں تک کہ ہم طول قیام کی وجہ سے لاٹھیوں پر ٹیک لگاتے اور ہم پو پھٹنے کے قریب (گھروں کو) واپس ہوتے۔ محدث شام شیخ البانی فرماتے ہیں : قُلْتُ: َھٰذَا سَنَدٌ صَحِيْحٌ جِدًّا فَاِنَّ مُحَمَّدَ بْنَ يُوْسُفَ شَيْخ مَالِكٍ ثِقَةٌ اِّفَقًا وَّاحْتَجَّ بِه الشَّيْخَانِ وَاسَّائِبُ بْنُ يَزِيْدَ صَحَابِيٌّ حَجَّ مَعَ النَّبِيِّ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) وَھُوَ صَغِيْرٌ۔ اس روایت کی سند بہت صحیح ہے کیونکہ محمد بن یوسف شیخ امام مالک بالاتفاق ثقہ ہے اور شیخین (بخاری مسلم) نے اس سے حجت لی ہے اور سائب بن یزید صحابی ہے جس نے بچپن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا و جابر رضی اللہ عنہ کی پہلے بیان کردہ احادیث کے عین موافق ہے جس سے ثابت ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک مسنون گیارہ رکعت ہی ہیں جس پر آپ نے لوگوں کو جمع کیا۔ |