عن ابن عباس مرفوعا ہے۔ امام طبرانی فرماتے ہیں : یہ روایت حضرت ابن عباس سے صرف اسی اسناد سے منقول ہے۔ اور حافظ نور الدین ہیثمی کا قول ہے۔ انہ ضعیف۔ عبد اللہ رضی اللہ عنہ بن عباس کی حدیث ضعیف ہے۔ اور علامہ البانی فرماتے ہیں : وَالْحَقِيْقَةُ اَنَّه ضَعِيْفٌ جِدًّا كَمَا يُشِيْرُ اِلَيْهِ قَوْلُ الْحَافِظِ الْمُتَقَدِّمِ (مَتْرُوْكُ الْحَدِيْثِ) وَھٰذَا ھُوَ الصَّوَابُ فَقَدْ قَالَ ابْنُ مَعِيْنٍ: لَيْسَ بِثِقَةٍ وَقَالَ الْجَوْزَ جَانِيُّ: سَاقِطٌ وَّقَالَ الْبُخَارِيُّ: سَكَتُوْا عَنْهُ۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت ابن عباس كی روايت بہت ضعيف ہے جيسا کہ تقريب التہذیب میں حافظ ابن حجر کے قول (متروک الحدیث میں ) اشارہ ہے اور یہی درست ہے۔ امام الجرح والتعدیل ابن معین نے کہا: ابراہیم ثقہ نہیں اور جو زجانی نے کہا ہے: اعتبار سے گرا ہوا ہے اور امام بخاری فرماتے ہیں : سَکَتُوْا عَنْهُ (امام بخاری كے نزديك یہ کلمہ متروك الحديث كے شبیہ ہے۔ ملاحظہ ہو اختصار علوم الحدیث للحافظ ابن کثیر ص ۱۱۸) پھر شیخ البانی اپنے رسالہ ’’صلوۃ التراویح‘‘ میں فرماتے ہیں ۔ وَلِذَالِكَ فَاِنِّيْ اَرٰي اَنَّ حَدِيْثَه ھٰذَا فِيْ حُكْمِ الْمَوْضُوْعِ لِمُعَارَضَتِه لِحَدِيْثِ عَائِشَةَ وَجَابِرٍ كَمَا سَبَقَ عَنِ الْحَافظَيْنِ الزَّيْلَعِيِّ وَالْعَسْقَلَانِيِّ اور اسی لئے میری رائے یہ ہے کہ ابن عباس سے روایت موضوع کے حکم میں ہے کیونکہ یہ عائشہ اور جابر کی احادیث کے بھی معارض ہے جیسا کہ حافظ زیلعی اور حافظ عسقلانی کے اقوال میں گزرا ہے۔ |