رکعات کا لمبا کرنا ہے نہ کہ عدد میں زیادتی۔ اور علامہ عینی رحمہ اللہ حنفی فرماتے ہیں : اِنَّ الزِّيَادَةَ فِيْ الْعَشْرِ الْاَوَاخِرِ يُحْمَلُ عَلٰي التَّطْوِيْلِ دُوْنَ الزِّيَادَةِ فِيْ الْعَدَدِ آخری عشرہ میں زيادتی (محنت) كو ركعات كے لمبا كرنے پر محمول كيا جائے گا نہ کہ زيادتی عدد پر۔ حديث (۲) معجم الصغير اور قيام الليل مروزی [1]ميں حضرت جابر بن عبد اللہ سے مروی ہے۔ قَالَ صَلّٰي بِنَا رَسُوْلُ اللهِ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) فِيْ شَھْرِ رَمَضَانَ ثَمَانَ رَكَعَاتٍ حضرت جابر بن عبد الله فرماتے ہيں : رسول الله ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے ماهِ رمضان میں ہمیں آٹھ رکعت تراویح پڑھائیں ۔ امام ذہبی اس حدیث کو میزان الاعتدال جلد ۲ صفحہ ۳۱۱ میں عیسی بن جاریہ مدنی راوی حدیث کے ترجمہ (بیان احوال) میں ذکر فرماتے ہیں : اسنادہ وسط یعنی اس حدیث کی ند رمیانہ درجہ کی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اس حدیث کو بیان کر کے اس کی سند پر کوئی جرح نہیں کی۔ گویا مقدمہ فتح الباری (ہدی الساری) میں ذکر کردہ شرط کی بناء پر حافظ صاحب کے نزدیک اس کی سند صحیح یا کم از کم حسن درجہ کی ہے۔ ایسے ہی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث پر تلخیص الجیر فی تخریج احادیث الرافعی الکبیر (فقہ شافعی) میں سکوت کیا ہے۔ اور علامہ عینی حنفی بھی عمدۃ القاری شرح بخاری میں اس حدیث کو لائے ہیں اور ابن خزیمہ اور ابن حبان سے اس کی تصحیح نقل کی ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ ہاں البتہ مولوی شوق نیموی نے آثار السن میں امام ذہبی کے کلام پر تنقید کی ہے چنانچہ لکھا ہے۔ اس حدیث کا مدار عیسی بن جاریہ پر ہے۔ اس میں ابن معین، ابو داؤد اور نسائی وغیرہ نے جرح کی ہے اس بناء پر اس کی اسنادلین (کمزور) ہے لہٰذا دلیل کے قابل نہیں ۔ |