وَالتَّھَجُّدَ عَلٰی حِدَۃٍ فِیْ رَمَضَانَ بَلْ طَوَّلَ التَّرَاوِیْحِ، وَبَیْنَ التَّرَاوِیْحِ وَالتَّھَجُّدِ فِیْ عَھْدِہ عَلَیْہِ السَّلَامُ لَمْ یَکُنْ فَرْقٌ فِی الرَّکَعَاتِ۔ حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی حدیث میں تصریح ہے کہ یہ (گیارہ رکعات) بحالت رمضان ہیں کیونکہ سائل کا سوال رمضان و غیر رمضان سے ہے جیسا کہ ترمذی اور مسلم میں ہے، اور یہ ماننا ہی پڑتا ہے کہ نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی نمازِ تراویح آٹھ رکعات تھیں اور روایتوں میں سے کسی روایت میں یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آپ نے رمضان میں تراویح اور تہجد علیحدہ علیحدہ پڑھی ہوں بلکہ آپ نے تراویح ہی کو لمبا کیا اور آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے عہد مبارک میں تراویح اور تہجد کی رکعات میں کوئی فرق نہیں تھا۔ گیارہ رکعات کی حکمت: رکعات تراویح میں گیارہ رکعات کی حکمت یہ ہے کہ تہجد (تراویح) اور وتر رات کی نماز ہیں جس طرح ظہر، عصر اور مغرب دن کی نماز ہیں ، جب دن کی نماز ظہر ۴، عصر ۴ اور مغرب ۳ کل گیارہ رکعات فرض ہیں ۔ رات کی نماز بھی عدد میں (گیارہ رکعات) ان کے برابر مناسب ہے اور اگر فجر کے دو فرض بھی دن کی نمازوں میں شامل کر لیے جائیں تو تیرہ رکعات کی حکمت بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی کہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت ان کی ایک دوسری روایت کے خلاف ہے جو یوں ہے اِنَّه كَانَ (ص) اِذَا دَخْلَ الْشْرُ الْاَوَاخِرُ يَجْتَھِدُ مَا لَا يَجْتَھِدُ فِيْ غَيْرِه۔ رمضان المبارک کا جب آخری دھاکا آتا تو آنحضرت ( صلی اللہ علیہ وسلم ) عبادت میں اتنی محنت کرتے جو اس سے دوسرے دنوں میں نہ ہوتی۔ [1] یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نفل نوافل بہت پڑھتے تھے۔ اس کے جواب میں صاحب مرعاۃ المفاتیح مولانا رحمانی فرماتے ہیں ۔ قُلْتُ: اَلْمَرادُ بِالْاِجْتِھَادِ تَطْوِيْلُ الرَّكَعَاتِ لَا الزِّيَادَةُ فِيْ الْعَدَدِ۔ يعنی محنت سے مراد |