( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا معمول رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہ تھا۔ چار رکعت خوب اچھی طرح (خشوع خضوع سے) اور لمبی پڑھتے پھر چار رکعت خوب اچھی طرح اور لمبی پڑھتے پھر تین رکعت وتر پڑھتے۔ حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں ۔ میں نے کہا یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں ۔ فرمایا اے عائشہ میری آنکھیں سوتی ہیں اور دِل جاگتا ہے۔ اس حدیث کو امام المحدثین محمد بن اسمٰعیل بخاری (رحمہ اللہ تعالیٰ) اپنی جامع میں تین مقامات پر لائے ہیں ۔ کتاب التہجد۔ [1]کتاب صلوۃ التراویح۔ کتاب المناقب۔ مقصود اس سے مختلف مسائل کا استنباط و استخراج ہے جیسا کہ بخاری کی عادت ہے۔ حافظ ابن حجر (رحمہ اللہ) فتح الباری جز ۳ صفحہ ۳۳ مذکورہ حدیث کے تحت یوں رقم طراز ہیں : فِیْ الْحَدِیْثِ دَلَالَۃٌ عَلٰی اَنَّ صَلَاتَہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کَانَتْ مُتَسَاوِیَۃً فِیْ جَمِیْعِ السَّنَۃِ یعنی اس حدیث میں اس بات پر دلالت ہے کہ آپ کی (رات کی) نماز سارا سال برابر تھی۔ فضیلۃ الشیخ علامہ ابو الحسن عبید اللہ بن علامہ محمد عبد السلام مبارک پوری حفظہ اللہ تعالیٰ فی الدارین اپنی محققانہ تالیف مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح میں تحریر فرماتے ہیں : فَھٰذَا الْحَدِیْثُ نَصٌّ فِیْ اَنَّہُ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اِنَّمَا صَلّٰی التَّرَاوِیْحَ فِیْ رَمَضَانَ ثَمَانَ رَکَعَاتٍ فَقَطْ َلَمْ یُصَّلِ بِاَکْثَرَ مِنْھَا۔ یعنی یہ حدیث اس بات پر نص ہے کہ نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے رمضان میں صرف آٹھ رکعت ہی پڑھی ہیں اس سے زیادہ نہیں پڑھیں ۔ مولانا انور شاہ کشمیر رحمہ اللہ حنفی عرف الشذی صفحہ ۳۰۹ میں فرماتے ہیں : فِیْہِ تَصْرِیْحٌ اَنَّہ حَالُ رَمَضَانَ فَاِنَّ سَالَ سَالَ عَنْ حَالِ رَمَضَانَ وَغَیْرِہ کَمَا عِنْدَ التِّرْمِذِی،ّ وَمُسْلِمٍ َّلَا مَنَاصَ مِنْ تَسْلِیْم اَنَّ تَرَاوِیْحَہ عَلَیْہِ السَّلَامُ کَانَتْ ثَمَانِیَۃَ[2] رَکَعَاتٍ َّلَمْ یَثْبُتْ فِیْ رِوَایَۃٍ مِّنَ الرِّوَایَاتِ اَن َّہ عَلَیْہِ السَّلَامُ صَلّٰی التَّرَاوِیْحَ |