اس کا جواب یہ ہے کہ حافظ ابن حجر شرح نجنۃ الفکر میں فرماتے ہیں اَلذَّھْبِيُّ مِنْ اَلِ اسْتقْرَاءِ التَّامِّ فِي نَقْدِ الرِجَّالِ امام ذہبی رواۃ کی جرح و تعدیل میں اہل استقراء تام سے ہیں ۔ بحر العلوم صفحہ ۴۴۱ طبع نول کشور شرح مسلم الثبوت (اصول فقہ حنفی) ميں ذہبی کے متعلق ذکر ہے: ھُوَ مِنْ اَھْلِ الْاِسْتِقْرَاءِ التَّامِّ فِيْ نَقْلِ حَالِ الرِّجَالِ یعنی اس کا (ذہبی کا) استقراء اسماء الرجال میں بہت کامل ہے۔ صاحب تحفة الاحوذی جز ۳ ص ۵۲۵ (طبع جديد مصری) ميں فرماتے ہیں ۔ فَلَمَّا حَكَمَ الذَّھْبِيُّ بِاَنَّ اِسْنَادَه وَسَطٌ بَعْدَ ذِكْرِ الْجَرْحِ وَالتَّعْدِيْلِ فِيْ عِيْسٰي بْنِ جَارِيَةَ وَ ھُوَ مِنْ اَھْلِ الْاِسْتِقْرَاءِ التَّامِّ فِيْ نَقْدِ الرِّجَالِ فَحُكْمُهٌ بِاَنَّ اِسْنَادَه وَسَطٌ وَھُوَ الصَّوَابُ وَيُؤَيِّدُه اِخْرَاجُ ابْنِ خُزَيْمَةَ وَابْنُ حِبَّانَ ھٰذَا الْحَدِيْثَ فِيْ صَحِيْحَيْھِمَا فَلَا يُلْتَفَتُ اِلٰي مَا قَالَ النِّيْمَوِيُّ وَيَشْھَدُ لِحَدِيْثِ جَابِرٍ ھٰذَا حَدِيْثُ عَائِشَةَ الْمَذْكُوْرُ مَا كَانَ يَزِيْدُ فِيْ رَمَضَانَ وَلَا فِيْ غَيْرِه عَلٰي اِحْدٰي عَشَرَة رَكَعَةً جب امام مذہبی رحمہ اللہ نے عیسی بن جاریہ میں جرح و تعدیل کے بعد اس حدیث کی سند پر وسط (درمیانہ درجہ) کا حکم لگایا ہے۔ وہی صحیح ہے کیونکہ ذہبی نقد رجال میں اہل استقراء تام سے ہیں اور اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ ابن خزیمہ اور ابن حبان[1] اپنی اپنی صحیح میں اس حدیث کو لائے ہیں ۔ پس نیموی کا قول قابل التفات نہیں ہے۔ نیز حضرت جابر کی اس حدیث کی مؤید (شاہد) حضرت عائشہ کی حدیث ہے یعنی رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا معمول رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ |