جانوروں کی خرید و فروخت میں بھی دھوکے کا بہت احتمال ہوتا ہے۔ حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا :’’ اونٹنی اور بکری کا دودھ نہ روکو، اگر ایسی حالت میں کسی نے کوئی جانورخرید لیا تو اسے دوباتوں کا اختیار ہے کہ دودھ دوہ کر پسند آئے تو رکھ لے ، ورنہ واپس کردے اور اس کے ساتھ ایک صاع کھجوریں بھی دےدے۔‘‘آقا علیہ السلام نے دوھوکا دے کر مال فروخت کرنے کی جس طرح ممانعت فرمائی ہے اسی طرح بعض اوقات لوگ خراب مال کو بیچنے کے لیے جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ ان کا مال زیادہ قیمت میں فروخت ہو جائے۔ اس کی موجودہ دور میں بہت مثالیں ملتی ہیں کہ فروخت کندہ کم قیمت پر چیز خریدتا ہے اور بہت زیادہ منافع حاصل کرنے کے لیے جھوٹی قسمیں اٹھاتا ہے ۔‘‘ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’ تین افراد ایسے ہیں جن کی طرف قیامت کے دن اللہ تبارک وتعالیٰ نہ تو نظر (کرم) کریں گے نہ انہیں پاک کریں گے اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔، ایک وہ شخص جو رہ گزر پر زائد پانی کا مالک ہے اور مسافروں کو نہیں دیتا اور دوسرا وہ شخص جو کسی امام کی بیعت دنیا کی غرض سے کرتا ہے۔ اگر وہ اس کی مرضی کے مطابق ( اس کو دنیوی مفادات) دیتا ہے تو اس سے راضی و خوش رہتا ہے اور اگر نہیں دیتا تو اس سے ناراض ہوتا ہے۔ تیسرا وہ شخص جس نے کسی شخص کے ساتھ عصر کے بعد سودا کیا اور اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ مجھے اس چیز کا اتنا اور اتنا دیا گیا ہے تو دوسرے نے اس کی تصدیق کی۔‘‘[1] اس کی مثال کچھ یوں ہے کہ ایک آدمی بازار سے کپڑا خریدنے جاتا ہے اور فرخت کنندہ اسے کہتا ہے کہ اللہ کی قسم مجھے یہ کپڑا پانچ سو میں پڑا ہے اور میرا اس میں پچاس روپے منافع ہے حالانکہ اس نے وہ کپڑا تین سو روپے میں خریدا ہے۔ تو یہ بھی ایک استحصال کی قسم سے جس کو آقا علیہ السلام نے سختی سے منع فرمایا ہے اور اس طرح دھوکا دے کر مال فروخت کرنے والے کے خلاف سخت وعیدسنائی ہے۔ |