Maktaba Wahhabi

100 - 143
تناجش: نجش ’’جھوٹی بولی دینا۔‘‘ یہ بھی دھوکے کی ایک قسم ہے کہ کوئی شخص جو کہ فروخت کنندہ نہیں ہے اور نہ ہی خریدا ر ہے وہ خریدار کے مقابلے میں مبیع(فروخت کی جانے والی چیز) کی بولی لگائے حالانکہ اس کا ارادہ مال خریدنے کا نہ ہو۔ اور اس کے بولی لگانے کی وجہ سے مبیع کی قیمت بہت اوپر چلی جائے۔ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہع نہ سے روایت ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! وہ لوگ جو اپنا سامان تجارت اور مویشی بیچنے کی غرض سے منڈی میں لاتے ہیں تو (منڈی سے باہر ) ان سے سودا مت کرو۔ اگر ایک آدمی سودا کر رہا ہے تو محض قیمت بڑھانے کے لیے بولی مت لگاؤ۔ انفرادی استحصال کا حل اور تجارت میں فروخت کنندہ اور خریدار کے اختیارات تجارت جو کہ معیشت میں بڑی اہمیت کی حامل ہے قرآن کریم میں تجارت کے بارے میں متعدد حوالہ جات موجود ہیں جوکہ تجارت کی اہمیت اور اس سے متعلق احکامات پر مبنی ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالی تجارت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ، ترجمہ : ’’ اللہ تبارک و تعالٰی نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام۔‘‘سورۃ النساء میں ہے، ترجمہ : ’’اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ، مگریہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضامندی کاہو۔(سورہ نساء آیت نمبر 29 ) اس آیت مقدسہ میں مال ناحق کی ممانعت اور تجارت وغیرہ کی اجازت دی گئی ہے۔ اور حدیث پاک میں ہے: ’’مسلمان کامال دوسرے کیلئے اس کی دلی رضامندی کے بغیرحلال نہیں ۔‘‘ بہرحال تجارت اعلی اوربابرکت پیشہ ہے، اس سے حاصل ہونے والی کمائی حلال وطیب ہے۔ بلکہ ایک حدیث مبارکہ میں ہے’’رزق کے دس حصوں میں سے نوحصے تجارت سے حاصل ہوتے ہیں اورایک حصہ دوسرے پیشوں سے۔‘‘ جبکہ احادیث صحیحہ میں مومن تاجرکی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں : ’’سچا، امانت دار، مسلمان تاجر بروزقیامت انبیاء، صدیقین اورشہداء کے ساتھ ہوگا۔‘‘تجارت کی اس اہمیت اور فضیلت کے تحت اسلام نے اس کے بارے میں اصول و قواعد وضع فرما دئیے۔ تجارت میں بائع اور مشتری دونوں کے حقوق کا استحصال ہونے سے بچانے کے لئے خیار البیع کا بے نظیراصول وضع فرمایا تاکہ دونوں میں سے کسی کو بھی نقصان نہ ہو اور جھگڑے کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ
Flag Counter