بات طے کر لی جاتی کہ جس مال پر ہاتھ پڑے وہ اتنی قیمت کا ہوگا۔ اس کی موجودہ دور میں عام مثال ملتی ہے کہ اگر ایک گاہک کوئی سامان خریدتا ہے تو دکان پر نمایاں لکھا ہوتا ہے کہ خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں ہوسکتا۔ جو کہ آقا علیہ الصلٰوۃوالسلام کی تعلیمات کی سخت مخالفت ہے۔ بیع حبل الحبلۃ: بیع کی اس قسم میں مشتری (خریدار ) اونٹنی اس وعدہ پر خریدتا کہ جب وہ جنے پھر اس کا جو بچہ ہو وہ جنے تب اسکی قیمت ادا کروں گا۔ اب اس بیع میں فروخت کندہ استحصال کا شکار ہو رہا ہے کیونکہ اگر اس اونٹنی نے مادہ کی جگہ نر جنا تو اس کی قیمت نہ مل سکے گی۔ بیع صفقۃ: دور جاہلیت میں ایک اصول یہ بھی تھا کہ جب مشتری کوئی چیز خرید تا وہ بائع کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ مار کر یہ ثابت کرتا کہ اب بیع مکمل ہوگئی۔ اس وجہ سے اس بیع کو بیع صفقہ کہا جاتا۔ بعض اوقات یہ بھی ہوتا کہ بائع چاہے نہ چاہے مشتری چالاکی سے اس کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر بیع کر لیتا جو کہ بائع کو مجبوراً قبول کرنا پڑتی تھی۔ صفقہ کا معنی تالی بجانا ہے۔ [1] غرر: غرر ایک ایسا معاملہ ہے جس کا انجام نامعلوم ہو کہ آیا سودے کی تکمیل ہوگی کہ نہیں ۔ یہ جوئے کی ایک قسم ہے اگر کسی شخص نے مفرور غلام یا بھاگے ہوئے گھوڑے کا سودا کیا تو گویا اس نے خطرے پر مشتمل بیع کی کہ اگر مفرور غلام یا بھاگا ہوا گھوڑا نہیں ملتا تو یہاں پر جھگڑے کا بہت احتمال ہے۔ آقا علیہ السلام نے اس بیع کو منع فرمایا ہے۔ ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غرر کی بیع اور بیع الحصاۃ سے منع فرمایا ‘‘فقہ کی کتب میں اس کی مثالیں ہوا میں اڑتا ہوا پرندا اور پانی میں مچھلی کی بیع سے دی جا تی ہیں ۔ موجودہ دور میں غرر کی بہت ساری شکلیں پائی جاتی ہیں جیسے کہ روایتی انشورنس۔ انشورنس میں ایک آدمی |