فی الارض اور ابریاء کے نا حق خون کرنے کو حرام کہنے والےکو مرتد قرار دیتے ہیں ۔ اور دوسری طرف بعض روشن خیال لوگ شریعت کے بنیادی اصولوں کا ہی انکار کر دیتے ہیں کوئی یہ فتوی دیتا ہے کہ اسلام میں تقسیم میراث میں للذکر مثل حظ الانثیین کا قاعدہ مسلمہ نہیں بلکہ عورت کو مرد کے برابر کا حصہ ملنا چاہئے، کوئی یہ فتوی دیتا ہے کہ مرد وزن کا اختلاط عین شریعت کے مطابق ہے، کوئی موسیقی کو جائز قرار دیتا ہے۔ الغرض طرح طرح مسائل میں دلائل وحجت کے بغیر اپنے من کے مطابق فتوی دینا آج کل اِن لوگوں کاطرۂ امتیاز بن چکا ہے۔ بہت ہی کم لوگ ایسے ہیں جو غلط فتویٰ کی خطورت کو سمجھتے ہو ئے بلا علم فتویٰ کے گناہ سے ڈرتے ہیں ، جبکہ جاہل اور بے وقوف لوگ فتویٰ دینےمیں نہایت بے باک ہیں ۔ اس فانی دنیا میں سستی شہرت کے حصول، اور لوگوں کے دلوں میں اپنا رعب جمانے کے لیے، یا اپنے مختلف دنیاوی مذموم مقاصد کے حصول کے لیے حرام کو حلال قرار دیتے ہیں ۔ امام ربیعہ بن عبد الرحمن الرائ رحمہ اللہ ایک مرتبہ زار وقطار رو رہے تھے کسی نے پوچھا آپ پر کوئی مصیبت آن پڑی ہے کیوں رو رہے ہو؟ تو آپ نے فرمایا: علم وحکمت سے دُور لوگوں سے فتویٰ پوچھا جا رہا ہے،اسلام میں بہت بڑا سانحہ رونما ہوا ہے۔ آج کل کے بعض مفتی چور اور ڈاکو سے زیادہ زندان کے مستحق ہیں ۔[1] اس مضمون کے آخر میں امام خطیب أبو بکر بغدادی رحمہ اللہ کی شہرۂ آفاق (کتاب الفقیه والمتفقه)کے ایک باب کا خلاصہ پیشِ خدمت ہے جواُنہوں نے(باب ذکر شروط مَن یصلح للفتویٰ) کے نام سے قائم کیاہے۔ ’’ایک مفتی کا منصبِ فتویٰ قبول کرنے کے لیے اس کا عاقل، بالغ، عادل ثقہ، اور أحکامِ شرعیہ کا عالم ہونانہایت ضروری ہے: اور أحکامِ شرعیہ کے اصول چار ہیں : 1.(العلم بکتاب الله)، قرآن مجید کے أحکام، محکم او رمتشابہ، عموم وخصوص، مجمل اور مفسر، ناسخ اور منسوخ پر اس کو عبور حاصل ہو۔ |