2.(العلم بسنة رسول الله صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم )، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قولی اور فعلی ثابت سنتوں کا علم ہو۔ أحادیث کے متواتر اور آحاد ہونے، صحیح یا ضعیف ہونے، اور اسکا حکم مطلق ہونے یا کسی سبب کے ساتھ خاص ہونے کا اسے مکمل عبور ہو۔ 3.سلف صالحین کے اقوال کے بارے میں اس کو مکمل آ گاہی حاصل ہوکہ کس مسئلہ میں سلف کا أجماع ہے اور کس مسئلہ میں أن کا اختلاف ، تاکہ مجمع علیہ مسائل میں ان کی پیروی کی جاسکے اور مختلف فیہ مسائل میں اجتہاد کیا جاسکے۔ 4.قیاس کا صحیح علم رکھتا ہو، تاکہ اُن فروعی مسائل کو جن پر شریعت خاموش ہے، اُن اصولی مسائل پر قیاس کیا جاسکے جن کا شریعت میں واضح حکم ہو، یا اُن مسائل پر قیاس کیا جائے جن پر سلف کا اجماع ہو۔ اِن چیزوں کے علم سے مفتیان کرام (نوازل) نئے نئے پیش آمدہ مسائل میں اجتہا د کر سکتے ہیں ، اور اِنہیں حق اور باطل کی پہچان ہوگی۔ اور ایک مفتی کے لیے اِن چیزوں سے لا علمی کی کوئی گنجائش نہیں ۔‘‘[1] جبکہ مع الاسف الشدید ہمارے ہاں چار ،چھ سال کا ایک کورس کرنے کے بعد مفتی کے لقب سے نوازدیا جاتا ہے، اور احکام شریعہ پر مکمل عبور حاصل کیے بغیر فتوے صادر کرتے ہیں جس سے کہیں خون خرابہ ہوتا ہے، کہیں حرام شرمگاہ کو حلال قرار دیا جاتا ہے، لوگوں کی جان ومال کی حرمت کو پامال کیا جاتا ہے۔ (جیساکہ آج کل ٹی وی چینلزاور اخبارات میں برطانیہ میں حالیہ دنوں میں پیش آنے والے حلالہ کےبھیانک معاملے پرکافی بحث ہورہی ہے،جوکہ ایک ملعون اورحرام فعل ہے،اور’’نام نہادشکم پرست مولوی‘‘ کس طرح اس کو’’حلال‘‘کرنے پرکمربستہ ہیں ؟۔والعیاذباللہ) اللهم علمنا ما ینفعنا وانفعنا بما علمتنا وزدنا علما(آمین) |