أشداختلافاً)تم اصحاب بدراختلاف کاشکارہو، تمہارے بعدوالے اس سے کہیں زیادہ اختلاف کاشکارہوں گے،توحضرت علی بن ابی طالب-جوسیدناعمرکےسُسراورمشیرخاص تھے- نے فرمایا:اس مسئلے میں ازواج مطہرات سے زیادہ کوئی جاننے والانہیں ،آپ ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس کسی کوپوچھنے کے لیے بھیج دیں ،جب ان سے پوچھاگیاتوانہوں نے جواب میں فرمایا(لاعلم لی بها فأرسل إلٰی عائشة)مجھے اس بارے میں کچھ معلوم نہیں عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھاجائے،جب عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیاگیاتوانہوں نے وہی جواب دیا جو معاذاورعلی بن ابی طالب کاجواب تھا:(إذاجاوز الختان الختان فقد وجب الغسل)،جب مسئلہ کی وضاحت ہوئی توسیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اگرآج کے بعدمجھے یہ معلوم ہواکہ کسی نے ایساکیاہے تومیں اس کوسزادوں گا۔[1] عہد فاروق میں افتاء کی علمی کمیٹی سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے اپنے دورِخلافت میں فتویٰ دینے کےلیے بعض صحابہ کرام کومخصوص کیاہواتھا،اورجن صحابہ کرام کو جس جس علوم پر عبورحاصل تھاصرف اسی کے بارے میں فتویٰ دیتے تھے۔ آپ کاارشادہے:(من أراد أن یسأل عن القرآن فلیأت أبي بن کعب،ومن أراد أن یسأل عن الفرائض فلیأت زیدبن ثابت،ومن أراد أن یسأل عن الفقه فلیأت معاذبن جبل،ومن أراد أن یسأل عن المال فلیأتنی فإن الله تبارک وتعالیٰ جعلنی له خازناًوقاسماً) [2] اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قانون بنو أمیہ کے دور میں بھی رائج رہا، حج میں فتویٰ کے لئے عطاء بن أبی رباح رحمہ اللہ مقرر تھے۔ امام ذہبی،امام عطاء بن ابی رباح کی حالت زندگی میں لکھتے ہیں :بنوامیہ کے دورمیں ایام حج میں یہ اعلان ہوتاتھاکہ(لایفتي الناس إلاعطاء بن أبی رباح فإن لم یکن عطاء فعبدالله بن نجیح) [3]لوگوں کوفتویٰ صرف عطاء بن ابی رباح دیں گے اگروہ نہ ہوں |