علم نہیں تواس کا گناہ فتویٰ دینے والے پرہے۔ اورابوحصین عثمان بن عاصم رحمہ اللہ فرماتےہیں :(إن أحدهم لیفتي فی المسألة لو وردت علیٰ عمر لجمع أهل بدر) [1] آج کل لوگ ایسے ایسے مسائل میں فتویٰ دینے لگے ہیں اگریہ مسائل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کودرپیش ہوتے تووہ اہل بدرکوجمع کرکے ان سے ان کاحل معلوم کرتے۔ اوراس کی واضح مثال ہمیں اس واقعہ سے ملتی ہے:جلیل القدرصحابی سیدنا رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں کہ ایک دن میں سیدناعمررضی اللہ عنہ کی مجلس میں بیٹھاتھااتنے میں ایک شخص آپ کی مجلس میں آیا اورپکارااےامیرالمؤمنین!یہ زیدبن ثابت مسجدمیں بیٹھ کرلوگوں کوغسلِ جنابت کے متعلق اپنی رائے سے فتویٰ دے رہے ہیں ،امیرالمؤمنین نے فوراًانہیں اپنی مجلس میں حاضرہونے کاحکم دیا،زیدبن ثابت حاضرہوئے توامیرالمؤمنین ان سے مخاطب ہوئے کہ(أي عدونفسه قدبلغت أنک تفتي الناس برأیک)اے اپنی ذات کےدشمن! تم لوگوں کواپنی رائے سے فتوے دے رہے ہو؟!توزیدبن ثابت نےجواباًعرض کیا کہ اے امیرالمؤمنین!میں نے اپنی رائے سے توفتویٰ نہیں دیابلکہ میں نےیہ ابوایوب انصاری،ابی بن کعب،اوررفاعہ بن رافع سے سناہے،یہ سن کرامیرالمؤمنین،رفاعہ کی طرف متوجہ ہوئے اورفرمایا:کیاتم لوگ جب اپنی بیویوں سےجماع کرتےعدمِ انزال کی صورت میں غسل نہیں کرتےتھے؟تورفاعہ گویاہوئے:ہم اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےزمانہ میں ایساکِیا کرتےتھے،ہمیں اللہ کی طرف سے کوئی حرمت نہیں ملی اورنہ ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے منع کِیا،امیرالمؤمنین عمررضی اللہ عنہ نے دریافت کِیا کہ کیاآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جانتے تھے کہ لوگ ایساکرتےہیں ؟تورفاعہ نے لاعلمی کااظہارکِیا،توامیرالمؤمنین نے مہاجرین وانصارکوجمع کیااور ان سے اس مسئلہ کےبارے میں مشورہ کیاتوان میں سےبعض نے کہاکہ اس پرغسل واجب نہیں ،لیکن معاذبن جبل اورعلی بن ابی طالب رضی الله عنهمانے ان کے اس جواب سے اختلاف کیا اورفرمایا(إذاجاوز الختان الختان فقد وجب الغسل)مردعورت کی شرمگاہیں آپس میں مل جائیں توغسل واجب ہوجاتاہے۔ان کایہ اختلاف سن کرامیرالمؤمنین نے فرمایا:(هذا وأنتم أصحاب بدر؛ قداختلفتم فمن بعدکم |