جواب کےلیے اصرار کرومیں نے اس مجلس میں تم جیساہوشیارنہیں دیکھاہے،توالقاسم نے فرمایا:(لأن یقطع لسانی أحب إلی من أن أتکلم بمالاعلم لی به)میری زبان کاکٹ جانا مجھے زیادہ محبوب ہے اس بات سے کہ میں کسی ایسے سوال کے متعلق جواب دوں جس کامجھے صحیح علم نہ ہو۔[1] فتوی میں جرأت مندی اور جلد بازی دکھانے والے سلف کی نظر میں ۔ مشھور محدث سفيان بن عیینہ رحمہ اللہ فرماتےتھے:’’أجرؤ الناس علی الفتویٰ أقلهم علماً‘‘،فتویٰ دینے میں زیادہ جرأت مندوہ شخص هوتا ہےجوعلمی طورپرنکمّاہو۔[2] سیدنا عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتےہیں :’’إن الذی یفتي الناس فی کل مایسألونه لمجنون ۔‘‘ جوشخص ہرپوچھے جانےوالے سوال کاجواب دے وہ پاگل ہے۔[3] سیدناعبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کافرمان ہے:اے لوگو!جس شخص سے کسی چیزکے بارے میں پوچھاجائے اسے اس کاعلم ہوتوضرور اس کو بیان کرے،اورجس کوعلم نہ ہوتووہ "الله أعلم"کہے،کیونکہ جس چیزکاعلم نہ ہواس کے بارے میں اللہ اعلم کہنابھی علم ہی ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کویہ کہنے کاحکم دیاہے: قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ (ص: 86) ’’ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس پرکوئی بدلہ طلب نہیں کرتااورنہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں ۔‘‘ [4] صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے:(من فقه الر جل أن یقول لمالاعلم له به: الله أعلم) [5] ترجمہ: انسان کی بصیرت اس میں ہے کہ جس کا اسے علم نہ ہو اس میں وہ ’’اللہ اعلم‘‘( یعنی اللہ بہتر جانتا ہے )کہے ۔ حبرالأمة سیدناعبداللہ بن عباس رضی الله عنهمانےفرمایا:جوشخص کوئی ایسافتویٰ دیتاہے جس کااسے |