ابو حاتم کہتےہیں قابل صحت نہیں ہے۔[1] دلیل نمبر2 "قال سمعت محمود بن لبید قال اخبر رسول الله صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم عن رجل طلق امراته ثلاث تطلیقات جمیعا فقام غضبان ثم قال ایلعب بکتاب الله و انا بین اظهرکم حتی قام الرجل و قال یا رسول الله الا اقتله" ترجمہ :راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے محمود بن لبید سے سنا وہ فرما رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اطلاع ملی کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو اکٹھی تین طلاقیں دے دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غصہ سے کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ میری موجودگی میں اللہ تعالی کی کتاب سے کھیلا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ ایک شخص کھڑا ہو ا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا میں اسکو قتل نہ کردوں ۔[2] دلیل کا تجزیہ : اس حدیث سے ان کے موقف کی با لکل تائید نہیں ہوتی،بلکہ ایسی طلاق پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس واقعہ کی تین طلاق کو ایک قرار نہیں دیا۔ سوال یہ کہ اگر اسے ایک قرار نہیں دیا تو تین قرار دینے کا تذکرہ کہاں ہے ؟؟ دلیل نمبر 3 عن سهل بن سعد في هذا الخبر قال فطلقتها ثلاث تطليقات عند رسول الله صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم فانفذه رسول الله صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم [3] ترجمہ:سیدنا سھل ابن سعدرضی اللہ عنہ سے سیدنا عویمر رضی اللہ عنہ کے قصہ میں منقول ہے کہ سیدنا |