یعنی : دور صدیق سے عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی تین سال تک تمام صحابہ کا یہی حال تھا (یعنی سب کے نزدیک تین طلاقیں ایک شمار ہوتی تھیں ) اور ان صحابہ کی تعدادقطعی طور پر ایک ہزار سے زائد ہے۔ ایک مجلس میں تین طلاقوں کو طلاق مغلظہ قرار دینے والوں کے دلائل اور ان کی حقیقت اب ہم ان احادیث کے حوالے سے بھی کچھ باتیں ہدیہ قارئین کرنا چاہتے ہیں ،جنہیں پیش کر کے علماء احناف کے مفتیوں کی ایک خاصی تعداد بزعم خود یہ سمجھتی ہے کہ صحیح احادیث میں بھی ایک ہی مجلس /وقت میں دی گئی تین طلاقوں کو تین شمار کیا گیا ہے۔ دلیل نمبر 1 كانت عائشة الخثعمية عند الحسن بن علي فلما قتل علي قالت الخلافه قال بقتل على تظهرين الشماةة اذهبي فأنت طالق يعني ثلاثاً[1] ترجمہ : سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جب سیدنا حسن رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے تو ان کی اہلیہ عائشہ خثعمیہ نے انہیں مبار ک باد دی۔ اس پر حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا یہ مبارک باد سیدنا علی کی شہادت پر ہے۔تم اس پر خوشی کا اظہار کر رہی ہو، جاؤ! تمہیں تین طلاقیں ہیں ۔ جب ان کی عدت ختم ہوگئی تو سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے بقیہ مہر اور دس ہزار روپے صدقہ بھیجے جب عائشہ خثعمیہ کو یہ رقم ملی تو کہنے لگیں جدا ہونے والے حبیب سے یہ مال کم ہے،یہ سن کر سیدنا حسن رضی اللہ عنہ رو پڑے اور فرمایا کہ اگر نانا کا یہ فرمان نہ ہوتا کہ ’’ جس نے اپنی بیوی کو ماہواری کے وقت یا مبھم تین طلاقیں دے دیں تو وہ عورت بغیر نکاح ثانی کہ اس کے لئے حلال نہیں ‘‘ تو میں رجوع کرلیتا۔ دلیل کا تجزیہ اس روایت پر کوئی اور جرح کئے بغیر، ہم اس کی سند پر بحث کرتے ہیں ۔اس کی سند میں ایک راوی عمرو بن شمر ہے جس کے بارے میں ائمہ حدیث نے سخت جرح کر رکھی ہے۔مثلاً: امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ ’’ منکر الحدیث ‘‘ ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ اسے ’’ متروک الحدیث ‘‘ قرار دیتے ہیں ۔ |