Maktaba Wahhabi

79 - 143
یعنی : سیدنا علی، ابن مسعود، عبدالرحمن بن عوف اور زبیر رضی اللہ عنہم اسی طرح محمد بن وضاح، مشائخ قرطبہ میں سے محمدبن تقی بن مخلد،محمد بن عبدالسلام الخشنی وغیرہ،اصحاب ابن عباس میں سے عطاء طاؤس، عمر و بن دینار وغیرہ کا یہی مؤقف ہے۔[1] یہی مؤقف امام شوکانی کا ہے۔کما مر نیز یہی مؤقف امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم رحمہم اللہ کا ہے۔ بلکہ اہل علم کی مناسب تعداد کے ساتھ ساتھ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اس پر اجماع صحابہ تھا۔کیونکہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ کے خلاف کسی صحابی سے منقول نہ ہونا اس کی واضح دلیل ہے۔اسی لئے امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ وأما أقوال الصحابة: فيكفى كون ذلك على عهد الصديق، ومعه جميع الصحابة، لم يختلف عليه منهم أحد، ولا حكى في زمانه القولان،حتى قال بعض أهل العلم: إن ذلك إجماع قديم وإنما حدث الخلاف فى زمن عمر رضى الله عنه، واستمر الخلاف فى المسألة إلى وقتنا هذا‘‘[2] یعنی : (ایک مجلس میں تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوں ) اس کے متعلق صحابہ رضی اللہ عنھم سے ثبوت کے بارے میں اتنا ہی کافی ہے کہ یہ فیصلہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تھا اور سارے صحابہ رضی اللہ عنھم ان کے ساتھ تھے کسی نے اختلاف نہیں کیا نہ کسی سے کوئی دوسرا قول منقول ہے۔ حتٰی کہ بعض علماء کا تو یہ کہنا ہے کہ یہ پرانا اجماع ہے اور اختلاف بعد میں پیدا ہوا۔یعنی خلیفہ ثانی کے زمانے میں اور وہ اختلاف اب تک باقی ہے۔ نیز تعلیق المغنی میں ہے ’’ھذا حال کل صحابی من عھد الصدیق الی ثلاث سنین من خلافۃ عمر بن الخطاب وھم یزیدون علی الالف قطعاً‘‘[3]
Flag Counter