Maktaba Wahhabi

76 - 143
الْمَسْأَلَةِ لَا يَقْبَلُ التَّأْوِيلَ‘‘[1] یعنی :’’یہ حدیث اس مسئلہ میں نص ہے اور کسی تاویل کو قبول نہیں کرتی۔ ‘‘ مزیداس حدیث کی تصحیح مندرجہ ذیل ائمہ حدیث نے فرمائی ہے۔ علامہ احمد شاکر نے بھی اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔[2] اس حدیث کے حوالے سے دور حاضر کے عظیم محقق علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ هذا الإسناد صححه الإمام أحمد والحاكم والذهبى وحسنه الترمذى فى متن آخر تقدم برقم (1921) , وذكرنا هنالك اختلاف العلماء فى داود بن الحصين وأنه حجة فى غير عكرمة،ولولا ذلك لكان إسناد الحديث لذاته قويا، ولكن لا يمنع من الاعتبار بحديثه والاستشهاد بمتابعته لبعض بنى رافع، فلا أقل من أن يكون الحديث حسنا بمجموع الطريقين عن عكرمة، ومال ابن القيم إلى تصحيحه ‘‘[3] یعنی :اس سند کو امام احمد، حاکم اور ذھبی نے صحیح کہا ہے،اور امام ترمذی نے دوسرے متن میں اس سند کو حسن قرار دیا ہے،وہاں ہم نے اس سند کے ایک راوی داؤد بن حصین کی توثیق و جرح کے حوالے سے اقوال علماء پیش کردئیے ہیں ،کیونکہ داؤد بن حصین عکرمہ سے روایت بیان کرنے میں قابل حجت نہیں ۔اگر یہ علت نہ ہوتی، تو یہ روایت لذاتہ قوی ہو جاتی،لیکن پھر بھی اس روایت کوبعض بنی رافع کی متابعت کی وجہ سے استشہاد اور اعتبار کے طور پر پیش کرنے سے کوئی مانع نہیں ۔لہذا جناب عکرمہ کے طریق سے یہ روایت حسن کے درجہ سے کم نہیں ۔ امام ابن قیم بھی اس کی تصحیح کے قائل ہیں ۔ امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں یہ روایت جید الاسناد ہے۔(ایضاً)
Flag Counter