دیتا ہے تو اس کی روایت مقبول ہے نہ کہ اس کا فتوی یا عمل ملاحظہ فرمائیے۔[1] لہٰذا بالفرض جناب ابن عباس رضی اللہ سے اپنی روایت کے خلاف فتوی بھی اگر ہو تو ان کی روایت کو لیا جائے گا فتوی کو نہیں کیونکہ روایت مرفوع کے حکم میں ہے جوکسی غیر معصوم کے عمل نہ کرنے سے متروک نہیں ہو سکتی۔ حالانکہ ان کا فتوی مذکورہ حدیث کے موافق بھی ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے (عون المعبود جلد نمبر صفحہ222 ) لہٰذا یہ تمام اعتراضات کم علمی کانتیجہ ہیں ،جیسا کہ وضاحت کی جا چکی ہے۔ حدیث نمبر 2 (عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:طَلَّقَ رُكَانَةُ بْنُ عَبْدِ يَزِيدَ أَخُو بَنِي الْمُطَّلِبِ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ، فَحَزِنَ عَلَيْهَا حُزْنًا شَدِيدًا، قَالَ: فَسَأَلَهُ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَيْفَ طَلَّقْتَهَا؟ " قَالَ: طَلَّقْتُهَا ثَلَاثًا، قَالَ: فَقَالَ: "فِي مَجْلِسٍ وَاحِدٍ؟ " قَالَ: نَعَمْ قَالَ: " فَإِنَّمَا تِلْكَ وَاحِدَةٌ فَأَرْجِعْهَا إِنْ شِئْتَ" قَالَ: فَرَجَعَهَا) [2] یعنی : ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رکانہ بن عبد یزید نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں ایک ہی مجلس میں تو وہ اس پر شدید پریشان ہوئے ابن عباس فرماتے ہیں کہ ان سے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا : کہ تم نے کیسے طلاق دی ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے تین طلاقیں دیں ۔نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا کیا تم نے ایک ہی مجلس میں یہ تین طلاقیں دیں انہوں نے کہا : ہاں ! میں نے ایک ہی مجلس میں تین طلاقین دیں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ایک واقع ہوئی ہے اگر تم چاہو تو رجوع کر لو ابن عباس فرماتے ہیں کہ انہوں نے رجوع کرلیا۔ اس روایت کےحوالے سے حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :’’ وَهَذَا الْحَدِيثُ نَصٌّ فِي |