Maktaba Wahhabi

74 - 143
کی ہے جو ائمہ محدثین کے نزدیک صحیح ہے۔[1] اس سے ظاہر ہوا کہ امام مسلم رحمہ اللہ کے دور یا ان سے پہلے محدثین میں سے کسی نے بھی اس روایت پر اعتراض نہیں کیا۔ 2.ابوالصھباء غیر معروف نہیں بلکہ ثقہ راوی ہے۔ امام ابو زرعہ نے انہیں ثقہ کہا ہے۔ اور امام ابن حبان نے کتاب الثقات میں ان کا ذکر کیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ و ہ صدوق ہے۔ [2] 3.ابوالصھباءحدیث کے راوی نہیں ہیں ، بلکہ وہ تو سائل ہیں ۔راوی تو امام طاؤس ہیں جو بالاتفاق ثقہ ہیں ۔ 4. یہ کہنا کہ ثقہ راویوں نے اس کے خلاف روایت کی ہے درست نہیں ، کیونکہ اس روایت کے خلاف کسی ثقہ راوی سے کوئی روایت نہیں آئی۔ 5.یہ جناب ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ذاتی قول نہیں کہ جس میں دیگر صحابہ ان کے معارض اور خلاف ہوں بلکہ یہ تو ایک معاملہ کی وضاحت ہے۔طلاق ثلاثہ کے معاملہ کو جیسے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جناب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور میں پایا جاتاتھا ویسے ہی بیان کردیا۔جبکہ اس کے برعکس کسی صحابی نے یہ بیان نہیں کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابو بکر صدیق کے زمانہ میں ایک مجلس کی تین طلاقیں تین شمار ہوتی تھیں ۔ 6.اس روایت پر یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ جناب ابن عباس رضی اللہ عنہ اس روایت کے خلاف فتوی دیتے تھے۔ اگر یہ روایت صحیح ہوتی تو ابن عباس اس کے خلاف فتوی کیوں دیتے ؟ یہ اعتراض بھی لا یعنی ہے کیونکہ اصول یہ ہے کہ راوی اگر اپنی مروی عنہ کے خلاف عمل کرتا ہے یا فتوی
Flag Counter