کے عہد مبارک میں ابو بکر صدیق کے عہد مبارک میں اور عمر فاروق کے ابتدائی تین سالوں میں ؟ ابن عباس نے جواب دیا جی ہاں ۔ اور تیسری روایت کے الفاظ ہیں : [أَلَمْ يَكُنِ الطَّلَاقُ الثَّلَاثُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ وَاحِدَةً؟ فَقَالَ: قَدْ كَانَ ذَلِكَ، فَلَمَّا كَانَ فِي عَهْدِ عُمَرَ تَتَايَعَ النَّاسُ فِي الطَّلَاقِ، فَأَجَازَهُ عَلَيْهِمْ] یعنی ابوالصھباء نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھاکہ ایک مجلس کی تین طلاقیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر کے زمانے میں ایک نہیں ہوتی تھی ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ایسا ہی ہوتا تھا،لیکن جب عمر فاروق کے زمانے میں لوگوں نے کثرت سے اس طرح طلاقیں دینا شروع کر دیں تو انہوں نے ان پر یہ نافذ کردیں ۔ مذکور ہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وارد ہونے والے اعتراضات اور ان کا رد بعض حضرات اس صحیح حدیث کو ایک مفروضہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں ، ان کے خیال میں یہ حدیث محض وہم اور مفروضہ ہے ان کے خیال میں اس حدیث کا راوی ابوالصھباء غیر معروف ہے اور اس حدیث کی بنیاد اسی ابوالصھباء پر ہے۔لہٰذا یہ روایت ابن عباس سے درست نہیں ہے کیونکہ ثقہ راویوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس کے خلاف روایت کی ہے۔اس لئے یہ روایت منکر ہے نیز اگر ابن عباس کا یہ قول صحیح بھی مان لیں تو دوسرے صاحب علم صحابہ کرام کے مقابلہ میں حجت نہیں ہو سکتا۔ رد : ہم کہتے ہیں کہ اس صحیح حدیث پرمذکورہ اعتراضات کا درست ہونا تو درکنار قابل التفات بھی نہیں ہیں ۔ 1.یہ حدیث صحیح مسلم کی ہے۔ امام مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے صحیح میں وہی روایت نقل |