پہلے مؤقف کی طرف گئے ہیں اور دیگر اہل علم دوسرے مؤقف کی طرف گئے ہیں اور یہی حق ہے۔اور میں نے اس حوالے سے اپنی دیگر کتب میں گفتگو کی ہے اور اس موضوع پر مستقل رسالہ بھی لکھاہے۔ یہ تو وہ حقیقت ہے جو باختصار ہدیہ قارئین کی گئی تاکہ مجلس واحدہ کی تین طلاقوں کے بارے میں غلط پروپیگنڈہ کرنے والے جان لیں کہ اس کا اثبات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے کر آج تک ہے اور قیامت تک باقی رہے گا۔ان شاء اللہ تعالیٰ جس طرح مفسرین کی ایک جماعت کا مؤقف اختصاراً پیش کیا گیا،اسی طرح صحیح احادیث میں بھی یہ صراحت موجود ہے،جو ہدیہ قارئین کی جاتی ہے : ایک مجلس کی تین طلاقیں احادیث کی روشنی میں حدیث نمبر 1 یہ روایت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،جیسا کہ وہ فرماتے ہیں : [کانَ الطَّلَاقُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَسَنَتَيْنِ مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَةً] [1] یعنی ایک ہی وقت میں دی گئی تین طلاقیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں ،سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اور سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ابتدائی دو سال تک ایک ہی شمار کی جاتی تھیں ۔ اس کے علاوہ یہ حدیث ایک اور سند سے اس طرح مروی ہے کہ ابوالصھباء ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھتے ہیں کہ [ أَتَعْلَمُ أَنَّمَا كَانَتِ الثَّلَاثُ تُجْعَلُ وَاحِدَةً عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَثَلَاثًا مِنْ إِمَارَةِ عُمَرَ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: نَعَمْ] [2] یعنی کیا آپ کو معلوم ہے ؟ کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک کے حکم میں ہوتی تھیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم |