یعنی اس آیت کا تقاضہ یہ ہے کہ لازماًدو طلاقیں الگ الگ ہوں ،کیونکہ اگر کسی نے بیک وقت دو اکٹھی طلاقیں دیں تو اس کے لئے یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ اس نے دو مرتبہ طلاق دی ہے جس طرح کوئی آدمی دوسرے کوبیک وقت دودرھم دیتا ہے تو اس وقت تک یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے دو مرتبہ درھم دئیے ہیں جب تک کہ دونوں الگ الگ نہ دے۔[1] یہی بات تفسیر البحر المحیط (صفحہ نمبر 192۔193جلد 2)،تفسیر کشاف للزمخشری (صفحہ نمبر 283جلد نمبر1)، تفسیر المظھری مصنفہ قاضی ثناء اللّٰه پانی پتی (صفحہ نمبر 300جلد نمبر 1 )،التفسیر الاحمدیہ مصنفہ ملا جیون (صفحہ نمبر 143۔144)و دیگرتفاسیر میں بھی موجود ہے۔ اگر ہم مختلف تفاسیر کی روشنی میں مذکورہ آیت (الطلاق مرتان )کا پس منظر زمانہ جاہلیت کے حوالے سے دیکھتے ہیں تو وہ بھی کچھ اس طرح ہے کہ ایک شخص اپنی بیوی کو طلاق دیتا اور عدت ختم ہونے کے قریب ہوتی تو رجوع کر لیتا اور پھر دوبارہ طلاق دے دیتا اور عدت ختم ہونے سے قبل رجوع کرلیتا،یوں اس کا مقصد نہ بسانا ہوتا اور نہ ہی بسنے دینا ہوتا بلکہ اسے لٹکا کے رکھنا ہوتا تھا قرآن مجید میں عورتوں پر ہونے والے اس ظلم کا سد باب کیا گیا یہ کہہ کر کہ طلاق دیکر رجوع کرنے کا حق دومرتبہ ہے،اب یا تو اس کو اچھی طرح بسا کر رکھو یا تیسری طلاق دیکر فارغ کردو،یہ حقیقت بھی بیک بارگی کے بجائے طلاق کے لئے وقفہ ہونے کے معتبر ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ اس تفسیری بحث کو ہم امام شوکانی رحمہ اللہ کے ایک جامع تبصرہ پر ختم کرتے ہیں ۔ جیسا کہ وہ فرماتے ہیں : ’’ وَقَدْ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي إِرْسَالِ الثَّلَاثِ دُفْعَةً وَاحِدَةً: هَلْ يَقَعُ ثَلَاثًا، أَوْ وَاحِدَةً فَقَطْ. فَذَهَبَ إِلَى الْأَوَّلِ الْجُمْهُورُ، وَذَهَبَ إِلَى الثَّانِي مَنْ عَدَاهُمْ وَهُوَ الْحَقُّ.وَقَدْ قَرَّرْتُهُ فِي مُؤَلَّفَاتِي تَقْرِيرًا بَالِغًا، وَأَفْرَدْتُهُ بِرِسَالَةٍ مُسْتَقِلَّةٍ‘‘ [2] یعنی : اہل علم نے تین طلاقوں کو اکٹھا دینے میں اختلاف کیا ہے کہ وہ تین شمار ہوں گی یاایک جمہور |