ہے،واضح کرتے ہیں ۔وہاں ان کے کم علم اور بے بصیرت ہونے کی بھی نشاندہی کرتے ہیں ۔ اب ہم اختصاراً وہ دلائل قرآن و حدیث، آثار صحابہ اور اہل علم کے اقوال سے نقل کرتے ہیں ،جو ایک مجلس کی تین طلاقوں کے ایک ہونے پر دلالت کرتےہیں ۔ ایک مجلس کی تین طلاق قرآن کی روشنی میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :﴿ اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ۠ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِاِحْسَانٍ ۭ﴾(البقرۃ : 229) یعنی طلاق رجعی دو بار ہے۔ یعنی طلاق دے کر رجوع کرنے کا اختیار مرد کو دو مرتبہ ہے،اب یا تو اسے دوسری مرتبہ رجوع کرنے کے بعد معروف طریقہ سے اپنے عقد میں رکھو اور اگر بسانا نہیں چاہتے تو اسے تیسری مرتبہ طلاق دے کراچھے طریقہ سے چھوڑ دو، اس آیت کریمہ میں لفظ’’ مرّتان ‘‘قابل غور ہے،جو دونوں طلاقوں کے درمیان وقفہ کو چاہتا ہے،اس کی وضاحت قرآن مجید کی اس آیت کریمہ ﴿ سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَيْنِ ﴾(التوبہ : 101)یعنی ہم انہیں دو مرتبہ عذاب دینگے۔جس کا صاف واضح مفہوم یہی ہے کہ دونوں عذابوں کے درمیان وقفہ ہے ایک مرتبہ دنیا میں تو دوسری مرتبہ آخرت میں ۔ اسی طرح ایک ہی وقت کوئی عمل متعدد بار بھی کیا جائے،تواسے ایک ہی مرتبہ کہا جائے گا، مثلاً اگر کوئی شخص دس لقمے روٹی کے کھائے تو یوں نہیں کہا جائے گا کہ اس نے دس مرتبہ روٹی کھائی یاپانچ گھونٹ پانی کے پینے پر یوں نہیں کہا جائے گا کہ اس نے پانچ مرتبہ پانی پیا۔نیز میدان عرفات میں کچھ دیر وقوف کرلینا اصل حج ہے۔اب اگر کوئی شخص وقوف عرفہ والے دن دس پندرہ بار میدان عرفات میں آنا جانا کرے تو یوں نہیں کہا جائے گا کہ اس شخص نے پندرہ حج کرلئے، کیوں کہ یہ سب ایک مجلس /وقت کا عمل ہے جو ایک ہی شمارہوگا۔ مذکورہ آیت کریمہ کے تحت کئی ائمہ تفسیر نے یہی مفہوم ذکر کیا ہے،جیسا کہ ا حمد بن علي ابو بكر الرازي الجصاص الحنفي (المتوفى: 370ھ) فرماتے ہیں : ’’ الطَّلاقُ مَرَّتانِ وَذَلِكَ يَقْتَضِي التَّفْرِيقَ لَا مَحَالَةَ لِأَنَّهُ لَوْ طَلَّقَ اثْنَتَيْنِ مَعًا لَمَا جَازَ أَنْ يُقَالَ طلقها مرتين وكذلك لَوْ دَفَعَ رَجُلٌ إلَى آخَرَ دِرْهَمَيْنِ لَمْ يَجُزْ أَنْ يُقَالَ أَعْطَاهُ مَرَّتَيْنِ حَتَّى يُفَرِّقَ الدَّفْعَ ‘‘ |