Maktaba Wahhabi

67 - 143
فلا) حضرت علیؓ نے کہا: تم نےجھوٹ کہا، تم بھی جب تک اس عورت کی طرح اقرار نہ کرلو، یہاں سے جا نہیں سکتے۔ اس مقدمہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حَکمین سے کہنا کہ کیاتم اپنی ذمہ داری سے واقف ہو، تمہاری ذمہ داری یہ ہے کہ اگر تم چاہو تو علیحدگی کرا دو(هَلْ تَدْرِيَانِ مَا عَلَيْكُمَا؟ عَلَيْكُمَا إِنْ رَأَيْتُمَا أَنْ تُفَرِّقَا فَرَّقْتُمَا) [1]اس بات کی علامت ہے کہ حَکمین بحیثیتِ حَکم تفریق کا اختیار رکھتے ہیں اوروہ اس کے ذمّہ دار ہیں ۔ اگر ان کی حیثیت محض وکیل کی ہوتی تو سوال اس طرح ہوتا کیاتمہیں معلوم ہے کہ تم کس بات کے وکیل بنائے گئےہو؟(هل تدريان ما وكلّتما) پھر یہ کہ خلع میں اگر ایک طرفہ مرد کی رضا مندی ضروری ہوتی اور قاضی کو اس سلسلہ میں کوئی اختیار نہ ہوتا تو یہ بات بھی درست نہ ہوتی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس پر طلاق کی آمادگی کے لئے دباؤڈالیں ، وہ زیادہ سے زیادہ سفارش اور اپیل ہی کرسکتے تھے۔ ان وجوہ کی بنا پر واقعہ ہے کہ اس مسئلہ میں امام مالک کی رائے زیادہ قوی معلوم ہوتی ہے اور یہی رائے اکثر فقہاء: اوزاعی، اسحاق، شعبی، نخعی، طاؤس، ابوسلمہ، ابراہیم، مجاہد اور امام شافعی کی ہے اور صحابہ میں بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللّٰہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا یہی مسلک نقل کیا گیا ہے۔ احناف کےدلائل کا تجزیہ احناف کےدلائل اس مسئلہ میں قابل غور ہیں ۔ ان کا یہ کہنا کہ اصل یہ ہے کہ طلاق کا اختیار مرد کے ہاتھ میں ہے، تسلیم ہے مگر اس سےبھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مقاصدِ نکاح کی حفاظت اور زوجین کی مصلحتوں کی رعایت کےپیش نظر قاضی بھی بہت سی صورتوں میں تفریق کا مختار بن جاتا ہے۔ یہاں بھی زوجین کےبڑھتے ہوئے شدید اور ناقابل حل اختلاف کو پیش نظر رکھ کر جب قاضی کےنمائندے اس نتیجہ پر پہنچ جائیں کہ ان دونوں میں تفریق اور علیحدگی ہوجانی چاہیے تو مقاصدِنکاح کی حفاظت اور دونوں کو اللّٰہ کی حدوں پر قائم رکھنے کے لئے ضروری ہوگا کہ یہ لگام مرد سے لے لی جائے اور قاضی کی طرف سے مقرر شدہ حَکم از خود تفریق کردیں ۔ احناف کا یہ استدلال کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے شوہر کو اس کا اقرار کرنے پر مجبور کیوں کیا کہ وہ بھی حکم کے
Flag Counter