فیصلہ کےمطابق مصالحت اور علیحدگی ہر دو صورت پر آمادہ ہو۔ کیونکہ اگر حکم کو اس کا اختیارہوگا تو شوہر کااقرار کرنا اور انکار کرنا کوئی اہمیت نہیں رکھتا، بھی دو ٹوک نہیں ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ ور ان کے ہم خیال حضرات کےنزدیک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس حکم کی حیثیت وہی تھی جو نامرد کو طلاق کا حکم دینے کے سلسلے میں ہے۔ یعنی اگر شوہر نامرد ہو اور عورت نے یہ ثابت کردیاکہ وہ اس سے علیحدگی کی حقدار ہے تو قاضی پہلے خود شوہر سے کہے گا کہ وہ عورت کو طلاق دے دے، مرد اگر اس پر آمادہ ہوگیا تو ٹھیک ہے ورنہ خود قاضی اس کی طرف سے عورت کو طلاق دے دے گا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کامطالبہ یہاں اسی نوعیت کا تھا کہ اگر شوہر خود طلاق دے دے تو بہتر ہے ورنہ پھر قاضی کے نمائندے حکمین خود اس ناخوشگوار فریضہ کو انجام دیں گے۔ ہمارے زمانے میں جہالت او راحکامِ شرع سے بے خبری اور اس کی وجہ سے ازدواجی زندگی میں ظلم و زیادتی اور اختلافات کی روشنی میں اگر اس مسئلہ میں فقہائے مالکیہ کی رائے قبول کرلی جائے تو شاید مناسب ہو۔ یہ چند سطریں اس لئے لکھی گئی ہیں کہ علمائے کرام اور اربابِ افتا ءاس جزئیہ پر نظرثانی کریں ۔( واللّٰه هو المستعان و عليه التّكلان) ان اُمور کے علاوہ ہمارے فلاسفہ اسلام نے خلع کی جو روح اور حکمت بتائی ہے وہ بھی اس سے مطابقت رکھتی ہے جو امام مالک کا مسلک ہے۔ چنانچہ حافظ ابن رشد مالکی لکھتے ہیں : ’’خلع عورت کے اختیار میں اس لیے رکھا گیا ہے کہ مرد کے اختیار میں طلاق ہے۔ چنانچہ جب عورت کو مرد کی طرف سے کوئی تکلیف ہو تو اس کے اختیار میں خلع ہے اور جب مرد کو عورت کی طرف سے تکلیف ہو تو شریعت نے اسے طلاق کا اختیار دیا ہے۔‘‘[1] جدید فقہی مسائل :حصہ دوم ، ص۹۷ تا ۱۰۷ غفر اللّٰه لنا ولہ وماعلینا إلاالبلاغ المبین |