دے جیسا کہ اس واقعہ میں ہوا، یاپھر قاضی خود علیحدہ کردے۔ آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم احادیث کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہ کے آثار اور معمول پرنظر ڈالیے: 5. اس نوعیت کا ایک واقعہ سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں پیش آیا۔ ان کے زمانہ میں عقیل رضی اللہ عنہ بن ابی طالب اور فاطمہ رضی اللہ عنہا بنتِ عتبہ(جو میاں بیوی تھے) کےدرمیان اختلاف پیدا ہوگیا۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے شکایت کی ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عبداللّٰہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کو بحیثیتِ حَکم بھیجا۔ حضرت عبداللّٰہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (أفرقن بينهما) ’’میں ضرور ان دونوں میں تفریق کردوں گا۔‘‘ اورمعاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں عبدمناف کے دو بزرگ خانوادوں میں تفریق نہیں کرسکتا (ما كنت لا فرق بَيْنَ شَيْخَيْنِ مِنْ بَنِي عَبْدِ مَنَاف) یہاں تک کہ ان دونوں نے باہم خود ہی مصالحت کرلی۔[1] یہاں بھی حضرت عبداللّٰہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا بحیثیتِ حکم فرمانا کہ میں ان دونوں کےدرمیان ضرور تفریق کردوں گا، اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حَکم بحیثیتِ حَکم خود ہی تفریق کےمعاملہ میں مختار ہوتا ہے، البتہ یہ ضروری ہے کہ دونوں ہی حَکم کسی ایک رائے پر متفق ہوجائیں ۔ 6.اس سلسلہ کا دوسرا واقعہ وہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد ِخلافت کا واقعہ ہے جس کا مجمل ذکر اس سے پہلے ہوچکا ہے۔ دارقطنی نے محمد بن سیرین کےواسطہ سے صحیح سند سے اس واقعہ کی تفصیل ان الفاظ میں نقل کی ہے کہ ایک شوہر و بیوی اپنے اپنے لوگوں کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حکم سے شوہر و بیوی ہرایک کے لوگوں میں سے ایک ایک حَکم منتخب کیےگئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اُن دونوں سےمخاطب ہوکر فرمایا:کیا تم کو اپنے ذمّہ داری معلوم ہے؟ تمہاری ذمہ داری یہ ہے کہ مناسب سمجھو تو دونوں میں علیحدگی کرا دو۔ عورت نے کہا: میں اللّٰہ کی کتاب پر راضی ہوں چاہے اس کا فیصلہ میرے حق میں ہو یامیرے خلاف...! شوہر نے کہا کہ جہاں تک علیحدگی کی بات ہے تو میں اس کے لئے تیار نہیں ہوں ۔ (أما الفرقة |