Maktaba Wahhabi

65 - 143
میں خود مختار ہوں ۔ 3. تیسرے قرآن نے یہاں ﴿إِن يُر‌يدا إِصلـحًا﴾ کہا ہے: ’’اگر حَکمین ان دونوں میں مصالحت کرانا چاہیں ۔‘‘ یہاں حکمین کی طرف ’ارادہ‘اور’ 'چاہنے‘ کی نسبت کی گئی ہے اور ایسی بات اسی کے بارے میں کہی جاسکتی ہے جو کسی کام کے کرنے اور اس کے خلاف اقدام کرنے کااختیار رکھتا ہے ۔جو شخص کسی کا وکیل ہو وہ ارادہ و اختیار کامالک نہیں ہوتا وہ تو بہر صورت خاص اسی حکم کا پابند ہوتا ہے۔ احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اب آئیے ان احادیث کی طرف جو اس مسئلہ میں قاضی کے مختار ہونے کو بتاتی ہے: 4.امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت عبداللّٰہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تشریف لائیں اور عرض کیا :اے اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کے دین و اخلاق سے کوئی شکایت نہیں ہے لیکن مجھے یہ بات بھی پسند نہیں ہے کہ مسلمان ہوکر کسی کی ناشکری کروں ( أكره الكفر في الاسلام) یعنی ایک طرف ثابت رضی اللہ عنہ کامیرے ساتھ اچھا سلوک ہے، دوسری طرف میرا اُن کی طرف طبعی رجحان نہیں ہے جس کے باعث میری طرف سے ان کی ناقدری ہوتی ہے۔ اس لیے ہم دونوں میں علیحدگی کرا دی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیاتم اس کو اس کاباغ لوٹا دوگی۔ اُنہوں نے کہا :’ہاں ‘.... اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ باغ لے لو اور اس کو طلاق دے د و(اقبل الحديقة وطلِّقها تطليقةً)اور ایک روایت کے الفاظ یوں ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو حکم دیا لہٰذا اُنہوں نے بیوی کو علیحدہ کردیا۔ (أمره ففارقها) [1] امام بخاری رحمہ اللہ کی ایک اور روایت اور نسائی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا نام جمیلہ بنت عبداللّٰہ تھا۔اس حدیث میں واقعہ کا یہ پہلو بہت قابل غور ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ثابت رضی اللہ عنہ سے اپیل نہیں کی نہ مشورہ کیا بلکہ دو ٹوک لفظوں میں طلاق دینے کا حکم فرمایا۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ قاضی مرد کی رضا مندی اور آمادگی معلوم کرنے کا پابند نہ ہوگا بلکہ حسبِ ضرورت اس کو اپنی صوابدید پر نافذ کرے گا۔ اب اس کےنافذ کرنے کی ایک صورت تو یہ ہے کہ خود مرد اس بات کے لیے تیار ہوجائے اور طلاق دے
Flag Counter