Maktaba Wahhabi

64 - 143
طلاق دینے کااختیار حاصل ہو اور وہ مرد کی رضا مندی حاصل کرنے کا مکلف نہ ہو۔ امام مالک رحمہ اللہ کے دلائل امام مالک رحمہ اللہ اور جوفقہاءقاضی کی طرف سے مقرر کیے ہوئے حَکمین کو تفریق اور علیحدگی کا مجاز گردانتے ہیں ، ان کی دلیل سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ہم خود قرآن مجید کی طرف رجوع کریں ۔ قرآن کہتا ہے: ﴿وَإِن خِفتُم شِقاقَ بَينِهِما فَابعَثوا حَكَمًا مِن أَهلِهِ وَحَكَمًا مِن أَهلِها إِن يُر‌يدا إِصلـحًا يُوَفِّقِ اللّٰهُ بَينَهُما إِنَّ اللَّهَ كانَ عَليمًا خَبيرً‌ا﴾(٣٥ سورة النساء) ’’اگر تم کو ان دونوں کے درمیان شدید اختلاف کا اندیشہ ہے تو ایک ایک حَکم مرد و عورت کے خاندان سےبھیجو۔ اگر وہ دونوں اصلاحِ حال چاہیں گے تو اللّٰہ ان دونوں کے درمیان موافقت پیدا کردے گا۔ اللّٰہ تمام باتوں سے باخبر اور واقف ہے۔‘‘ اس آیت میں متعدد قرائن ایسے ہیں جو امام مالک رحمہ اللہ کے موقف کی تائید کرتے ہیں : 1. اوّل یہ کہ اس آیت کے مخاطب قضاۃ اور حُکام ہیں ۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ ،ضحاک رحمہ اللہ اکثر مفسرین اور خود ابوبکر جصاص رازی کی یہی رائے ہے اور قرآن کے لب و لہجہ سے بھی اسی کی تاکید ہوتی ہے۔ اب ظاہر ہےکہ قاضی اور حاکم کی حیثیت واعظ اور محض اخلاقی اپیل کرنے والے ناصح کی نہیں ہے بلکہ اس کا منصب یہ ہے کہ جو لوگ وعظ و نصیحت کی زبان سمجھنے پر آمادہ نہ ہوں ،اُن کے لیے قانون اور اختیارات کی تلوار استعمال کی جائے۔لہٰذا اگر قاضی کے مقرر کردہ حَکمین کو قانونی اختیار حاصل نہ ہو تو قرآن کا قاضی کومخاطب بنانا اور قاضی ہی کی طرف سے حَکمین کی تقرّری ایک بے معنی بات ہوجائے گی۔اس لیے قضاۃ اور حکام سے خطاب بجائے خود اس بات کا ثبوت ہے کہ اس مسئلہ میں قاضی کے نمائندہ کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہونی چاہیے کہ وہ چاہے تو مصالحت کرا دے یااپنی صوابدید پرعلیحدگی کردے۔ 2. دوسرے قاضی کے بھیجے ہوئے ان نمائندوں کے لیے قرآن نے حَکم کا لفظ استعمال کیا ہے۔ حَکم کے معنی خود حکم اور فیصلہ کرنے والے کے ہیں ۔اب اگر اس کی حیثیت محض طرفین کےوکیل کی ہو اور وہ ان کے احکام کا پابند ہو تو وہ حکم اور فیصل کہاں باقی رہا۔ اس تعبیر کا تقاضا بھی ہے کہ وہ تفریق اور مصالحت کےمعاملہ
Flag Counter