ایک دو رکنی مصالحتی کمیٹی قائم کرے گا جس میں بہتر ہے کہ ایک مرد کارشتہ دار ہو اور دوسرا عورت کا، دونوں سمجھدار اور شرعی احکام سےواقف ہوں ، پھر وہ ان دونوں کے حالات کا جائزہ لیں ۔ اگر مصالحت اور اتفاق کی کوئی صورت نکل آئے تو دونوں میں مصالحت کرا دیں ، اور اگر یہ ممکن نہ ہوسکے اور دونوں کی رائے ہو کہ باہم تفریق اور علیحدگی کرا دی جائے تو وہ یہ بھی کرسکتے ہیں ؛ اس طرح کہ مرد کا رشتہ دار حکم طلاق دےدے اور عورت کا رشتہ دار حکم مہر معاف کرنے کا یا جومعاوضہ مناسب سمجھے عورت کو اس کی ادائیگی کا پابند کرے اور دونوں میں تفریق ہوجائے۔[1] احناف کے دلائل احناف دراصل اس مسئلہ میں اس عام اُصول پر چلے ہیں کہ طلاق کا اختیار مردوں کے ہاتھ میں ہے اور خلع بھی مال کےعوض میں طلاق ہی ہے، اس لیے مرد کی آمادگی بہرطور ضروری ہوگی۔ اس بنا پر ان کے یہاں حَکمین کی حیثیت زوجین کے وکیل کی ہوتی ہے اور وہ اِنہی حدود میں رہ کر اقدام کرسکتے ہیں جو زوجین نے متعین کردی ہیں ۔ دوسرے اُن کا استدلال اس واقعہ سے بھی ہے جسے ابوبکر جصاص رازی نے اپنی’احکام القرآن‘ میں اور دوسرے مختلف مصنّفین نے بھی اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے کہ حضرت علیؓ نے ایک ایسے ہی مقدمہ میں حَکم متعین کیے۔ پھر ان حَکمین سے مخاطب ہوکر ان کی ذمہ داری بتائی کہ اگر ان دونوں کو جمع کرسکو تو جمع کردو اور ان کا ازدواجی رشتہ برقرار رکھو اور اگر تفریق وعلیحدگی مناسب محسوس ہو تو ایک دوسرے کو علیحدہ کردو۔ عورت تو اس پر آمادہ ہوگئی مگر مرد نے علیحدگی پر اپنی عدمِ آمادگی کا اظہار کیا۔ حضرت علیؓ نےمرد پر دباؤ ڈالتے ہوئے فرمایا کہ جب تک تم اس عورت کی طرح فیصلہ کی ہر دو صورت پر آمادگی کااظہار نہ کرو، یہاں سے ہٹ نہیں سکتے۔﴿کَذَبْتَ وَالله لَا تَنْفَلِت مِنِّي حَتَّى تُقِرَّ كَمَا أَقَرَّ﴾[2] تو اس سے استدلال یوں ہے کہ یہاں حضرت علیؓ کا مرد کو تفریق کے لیے آمادہ ہونے پرمجبور کرنا بالکل بے معنیٰ ہوگا، اگر حکم کوبطور خود |