کامیابی نہ ہو تو خاوند نے عورت کو مہر میں جو کچھ دیا تھا، حاکم اسےلے کر خاوند کو واپس کردے اور اس کے درمیان تفریق کرا دے یہ خلع ہے‘‘[1] خلاصہ کے طور پر عرض ہے کہ طلاق یعنی زوجین کے مابین جدائی کی جوقسمیں قرآن سے ماخوذ و مستنبط ہیں ، ان میں ایک تو طلاق ہے، دوسری خلع اور تیسری فسخ نکاح ہے۔ یہ تینوں قسمیں اپنے حوالوں کے ساتھ اوپر مذکور ہوچکیں اور تینوں کی موجودگی میں تفویض طلاق کا قانون ہماری نظر میں خدائی شریعت میں کسی نقص او رکمی کو تسلیم کرنے کےمترداف ہے۔ [ماہنامہ '’معارف‘ اعظم گڑھ، دارالمصنّفین، بھارت، جنوری 2007ء صفحات 23تا 34 ملخصاً] اب دوسرا مضمون ملاحظہ فرمائیں ، اس میں فاضل مضمون نگار نے حنفی ہونے کے باوجود حق خلع کے انکار کے لئے احناف جو دلائل پیش کرتے ہیں ، اُن کا جواب بھی دیاہے اور اُنہیں نصوصِ قرآن و حدیث کے خلاف قرار دیا ہے۔ اس کا عنوان بھی فاضل مضمون نگار ہی کا تجویز کردہ ہے۔ یہ مضمون اُن کی کتاب ’جدید فقہی مسائل‘سےماخوذ ہے... خُلع میں قاضی او رحَکَم کے اختیارات خلع کے سلسلے میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس میں قاضی اور عدالت کے اختیارات کیاہوں گے؟ کیایہ مکمّل طور پر مرد ہی کے اختیار میں ہے اور اس کی آمادگی اور رضامندی ہی پر طلاق موقوف ہے یااس میں قاضی کو دخیل ہونے کا بھی کچھ حق ہے؟ فقہا کی رائیں اس سلسلے میں فقہا ء کی آراء مختلف ہیں ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے یہاں یہ اختیار مکمل طور پر مرد ہی کے ہاتھ میں ہے۔ قاضی خود یا قاضی کی طرف سے مقرر کیے ہوئے حکم بطورِ خود عورت کو طلاق نہیں دے سکتے۔ اس کے برخلاف امام مالک کے نزدیک قاضی زوجین کے حد سے گزرے ہوئے باہمی اختلاف کی صورت میں |