Maktaba Wahhabi

61 - 143
سورۃ البقرۃ کی آیت 229 [1] میں جس صورتِ طلاق کا ذکر ہے، اسے اصطلاحِ شریعت میں خلع کہتے ہیں ، طلاق اور خلع میں فرق یہ ہے کہ جب طلاق کا مطالبہ عورت کی طرف سے ہوا ہو اور مرد اس مطالبہ کو پورا کردے تو اسے خلع کہتے ہیں اور رجب مرد محض اپنی خواہش سے عورت کو اپنے سے جدا کرنا چاہے تو اسے طلاق کہتے ہیں ۔ مذکورہ بالا قرآنی آیت کی تفہیم میں جمیلہ بنتِ عبداللّٰہ اور ثابت بن قیس کا واقعہ ہماری رہنمائی کرتا ہےجو صحیح احادیث میں آیا ہے، اس واقعہ میں مذکورہ عورت کی خواہش پر مذکورہ مرد نے رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کہنے پر طلاق دی ، خلع کی تاریخ کا یہ پہلا واقعہ تھا۔ اس آیت میں ایک چیز قابل توجہ ہے، آیت کے ابتدائی حصے میں : ﴿وَلا يَحِلُّ لَكُم أَن تَأخُذوا﴾ آیا ہے، اس میں مخاطب کی ضمیر آتی ہے اور مراد شوہر ہیں جبکہ ﴿ فَاِنْ خِفْتُمْ﴾میں بھی یہی ضمیر آئی ہے مگر اس سےشوہر مراد نہیں ہیں بلکہ حکام عدالت یا بحیثیتِ مجموعی مسلمان مراد ہیں ۔نحوی حضرات اپنی اصطلاح میں اسے’انتشار ضمائر‘ کہتے ہیں اوراسے جائز و روا رکھتے ہیں ، قرآن میں اس طرح کی اور مثالیں بھی موجود ہیں ۔ آیت کو بحیثیتِ مجموعی دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں خلع کی دو قسمیں مذکور ہوئی ہیں ، قسم اوّل میں اس خلع کا بیان ہے جو گھر کے اندر رہتے ہوئے خوش اُسلوبی سےطےہوجائے اور قسم ثانی میں اس خلع کاجس کے لئے عورت کو قاضی کی عدالت میں جانا پڑے، بہر دو صورت خلع مطالبۂ طلاق کا نام ہے، خواہ وہ شوہر دے یا حاکم عدالت میں ان میں تفریق کرائے، اسی بات کومولانا حافظ صلاح الدین یوسف نے اپنی تفسیر احسن البیان میں یوں لکھا ہے کہ ’’خلع بذریعہ طلاق بھی ہوسکتا ہے اور بذریعہ فسخ بھی‘‘[2] پیر محمد کرم شاہ الازہری نےلکھا ہے: ’’عورت حاکم وقت کے پاس خلع کا مطالبہ کرے او رحاکم پہلے اُن کی مصالحت کی کوشش کرے گا، اگر
Flag Counter