بھی پیش کئے دیتا ہوں ۔ ارشادِ پاک ہے: ﴿وَلا تَعزِموا عُقدَةَ النِّكاحِ حَتّى يَبلُغَ الكِتـبُ أَجَلَهُ...235﴾... سورة البقرة ’’اور معاہدۂ نکاح کو پختہ نہ کرو جب تک بیوہ عورتوں کی عدت مکمل نہ ہولے۔‘‘ تفویض طلاق کی بابت کچھ حقائق منتخب مفسرین کے حوالہ سے بھی ملاحظہ ہوں : مفتی احمدیار خاں نعیمی رقم طراز ہیں : ’’عورتوں کو طلاق کا حق دینا گویا دیوانہ کے ہاتھ میں تلوار دینا ہے، پھر دن بھر میں پانچ پانچ طلاقیں ہوں گی، دیکھ لو آج امریکہ اور انگلینڈ میں طلاقوں کی کیسی بھرمار ہے کہ وہ لوگ چیخ پڑے ہیں ۔‘‘[1] مزید فرماتے ہیں : ’’طلاق کا حق صرف مرد ہی کو ہے، نہ کہ عورت کو‘‘[2] (اس عبارت میں ’صرف‘کا لفظ قابل توجہ ہے) اسلام کا قانون خلع تفویض طلاق کو سمجھنے کے لئے خلع کے قانون کا سمجھنا بہت ضروری ہے ، ہمارےنزدیک خلع کا قانون اپنی فطرت اور اصل میں تفویض طلاق کے قانون کا نقیض ہے۔ علامہ ابن رشد مالکی لکھتے ہیں : ’’خلع کا فلسفہ یہ ہے کہ خلع عورت کے اختیار میں اس لئے رکھا گیا ہے کہ مرد کے اختیار میں طلاق ہے، چنانچہ جب عورت کو مرد کی طرف سے کوئی تکلیف ہو تو اس کے اختیار میں خلع ہے او رجب مرد کو عورت کی طرف سے تکلیف ہو تو شارع نے اسے طلاق کا اختیار دیا ہے۔‘‘[3] |