صاحب ’’روح البیان‘‘ مزید فرماتے ہیں : ’’اسلام کی یہ کیسی معتدل تعلیم ہے کہ حتی الوسع نہ کسی کی حق تلقی ہو نہ دل شکنی ہو جیسے باہمی رضا مندی سے عقد نکاح کیا گیا تھا ایسے ہی باہمی رضامندی سے اسے ختم کر دیا جائے ، یعنی اگر میاں بیوی کو خطرہ ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے حقوق پورے نہیں کرسکتے تو ایسی صورت میں خلع کی اجازت ہے ۔‘‘ [1] سبحان اللہ! کیا خوب فلسفہ تراشی ہے۔ اسلام کی تعلیم میں تو بلاشبہ نہایت اعتدال اور توازن ہے کہ اس نے مرد کو طلاق کا حق دیا ہے جس کے ذریعے وہ ناپسندیدہ بیوی سے نجات حاصل کرسکتاہے اور اگر ایسے ہی حالات عورت کو پیش آجائیں اور وہ ناپسندیدہ شوہر سے نجات حاصل کرنا چاہے تو وہ حق خلع کے ذریعے سے علیحدگی حاصل کرسکتی ہے۔ یہ تو یقیناً اعتدال اور توازن کی بات ہے جس میں اسلام دیگر ادیان ومذاہب میں ممتاز ہے۔ لیکن جب آپ مرد کو تو مطلقاً یہ حق دے رہے ہیں کہ وہ جب چاہے عورت کو طلاق دے سکتاہے۔ کیا طلاق دیتے وقت مرد عورت کی رضا مندی حاصل کرنے کا پابند ہے؟ اور اگر عورت رضامند نہ ہوتو مرد طلاق نہیں دے سکتا؟ کیا واقعی آپ کے نزدیک ایسا ہے؟ اور اگر ایسا نہیں ہے اور یقیناً نہیں ہے تو پھر یہ کہنا : ’’جیسے باہمی رضامندی سے عقد نکاح کیاگیاتھا ایسے ہی باہمی رضامندی سے اسے ختم کر دیا جائے۔‘‘ کس طرح صحیح ہوسکتاہے ؟ اور اگر اس عبارت کا تعلق صرف عورت کے حق خلع سے ہے کہ اس میں دونوں کی رضامندی ضروری ہے تو پھر اعتدال تو نہ رہا۔ عورت کے حق طلاق کو تو مقید کردیا، خاوند کی رضامندی کے ساتھ، وہ رضا مندنہ ہوتو عورت کے لیے گلوخلاصی کی کوئی صورت ہی نہیں ۔ اس کو کون اعتدال کی تعلیم تسلیم کرے گا جس کو آپ اعتدال باور کرارہے ہیں ۔ اعتدال تو اسلام کے بتلائے ہوئے طریق خلع ہی میں ہے کہ دونوں ہی( مرد اور عورت) کے لیے یہ راستہ کھلا ہوا ہے کہ مرد علیحدگی چاہتاہے تو اس کے پاس طلاق کا حق ہے، عورت علیحدگی چاہتی ہے تو اس کے پاس خلع کا حق ہے ، خاوند اگر اس کا یہ حق تسلیم نہ کرے تو عدالت عورت کو اس کا یہ حق دلوائے گی۔ لیکن اگر |