Maktaba Wahhabi

54 - 143
تبصرہ : ان صاحب نے بھی حنفی طریق خلع کو قرآن وحدیث کا بیان کردہ خلع قرار دینے کی جسارت کی ہے حالانکہ ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ حنفی طریق خلع دراصل خلع کا انکار ہے کیونکہ ان کے نزدیک اس میں دونوں کی رضامندی ضروری ہے۔ اگر خاوند عورت کے مطالبۂ طلاق کو تسلیم نہ کرے تو عورت خلع حاصل کر ہی نہیں سکتی۔ خاوند کی ہٹ دھرمی کا حل قرآن وحدیث میں عدالت کو قرار دیاگیا ہے لیکن حنفی فقہ کہتی ہے ، عدالت کو قطعاً یہ حق حاصل نہیں ۔ عدالت اگر مداخلت کرکے عورت کو حق دلائے گی تو عورت کو طلاق نہیں ہوگی۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی عورت خاوند کی ہٹ دھرمی کی صورت میں عدالت سے خلع حاصل کرنے کے بعد عدت گزار کے کسی اور جگہ نکاح کرے گی تو یہ نکاح عند اللہ ناقابل قبول ہوگا، جب ایسا ہے تو پھر وہ نئے میاں بیوی تو ساری عمر زناکاری ہی کے مرتکب رہیں گے۔ بتلائیے! یہ حق خلع کا اثبات ہے جو اللہ کے رسول نے عورت کو دیا ہے یا اس کا صاف انکار ہے۔ خاوند کی رضا مندی کے بغیر اگر عورت اپنا یہ حق وصول نہیں کرسکتی، تو پھر خاوند کی ہٹ دھرمی کی صورت میں آخر وہ اپنا یہ حق کیسے وصول کرے گی؟ علمائے احناف آخر اس کی بھی تو وضاحت فرمائیں ۔ پھر اس حنفی طریق خلع پر اجماع کا دعویٰ؟ اور چند سطروں کے بعد ہی اسے جمہور فقہاء کا فیصلہ قرار دینا؟ عجیب تضاد فکر ہے ۔ اول تو اس کو جمہور فقہاء کا متفقہ فیصلہ بتلانا ہی غلط ہے اگر جمہور کی رائے تسلیم کر بھی لی جائے ، تو اجماع تو پھر بھی نہ ہوا ۔ اکثریت کی رائے کو اجماع تو نہیں کہا جاتا۔ دراصل اپنی بات کو مؤکد کرنے کے لیے یوں ہی اس کو ’’جمہور کی رائے‘‘ کہہ دیاجاتاہے یا اس پر ’’اجماع‘‘ کا دعویٰ کر دیا جاتاہے ، حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ اس لیے امام احمد رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے ۔ مَنِ ادَّعَى الْإِجْمَاعَ فَهُوَ كَاذِبٌ’’جو کسی مسئلے کی بابت اجماع کا دعویٰ کرے ، وہ جھوٹا ہے۔‘‘ زیر بحث مسئلہ بھی اس کی ایک واضح مثال ہے، حنفی طریق خلع نہ جمہور کا متفقہ فیصلہ ہے اور نہ اس پر اجماع ہے ۔ بھلاجو مسئلہ(حنفی طریق خلع) قرآن وحدیث کی نصوص صریحہ کے خلاف ہے، اسے جمہور کس طرح اختیار کرسکتے ہیں ؟ یا اس پر اجماع کس طرح ہوسکتاہے؟
Flag Counter