مطابق فیصلہ دے دیا اور اب تمام عدالتوں میں اسی فیصلے پر بطور قانون عمل ہورہاہے حالانکہ یہ فیصلہ قرآن وسنت کے دلائل اور جمہور کے متفقہ فیصلے کے خلاف ہے۔[1] تبصرہ اپنی رائے کو جو تقلیدی جمود پر مبنی ہے ، قرآن وسنت کے دلائل اور جمہور کے متفقہ فیصلے کے مطابق قرار دینا یکسر غلط اور خلافِ واقعہ ہے حالانکہ قرآن وسنت کے مطابق خلع کی اصل صورت وہ ہے جس کی مختصر تفصیل ہم نے پیش کی ہے۔ خلع کی اس صورت کو متجددین کی رائے بتلانا اور قرآن وسنت کی نصوص صریحہ کی بے جاتأویل کرکے ان سے اپنے تقلیدی موقف کا اثبات ایک تحکمانہ انداز اور قرآن وحدیث میں بیان کردہ حق خلع کا صریح انکار ہے ۔ اعاذنا اللّٰه منہ مضمون طویل ہوگیا ہے ورنہ ہم ان کی ان تأویلاتِ باطلہ کی حقیقت بھی واضح کرتے جو انہوں نے ’’درس ترمذی‘‘ میں بیان کرکے تقلیدی جمود کا ثبوت دیاہے۔ ضرورت پڑی تو ان شاء اللہ ان پر بھی گفتگو ہوگی ۔بعون اللّٰه وتوفیقہ ایک اور حنفی مفسیر کا حق خلع کا انکار تفسیر ’’روح القرآن‘‘ کے مفسر آیت خلع کی تفسیر میں لکھتے ہیں : ’’خلع میاں بیوی کا آپس کا معاملہ ہے ، اس میں عدالت یا تیسرا کوئی شخص مشورہ تو دے سکتاہے، جبر نہیں کرسکتا، نہ عدالت کے پاس ازخود یہ اختیار ہے کہ وہ شوہر کی رضامندی کے بغیر عورت کے حق میں یکطرفہ (ون سائڈ) خلع کا فیصلہ کردے۔ اگر عدالت ایسا کوئی فیصلہ کرتی ہے تو وہ قرآن وحدیث اور اجماع کے خلاف ہونے کی وجہ سے لوگوں کے نزدیک ناقابل عمل ہوگا اور اللہ کے نزدیک ناقابل قبول رہے گا۔ جس طرح نکاح کی قبولیت کا حق صرف شوہر کو یا اس کے بارے میں مقرر کردہ وکیل ہی کو حاصل ہے اسی طرح خلع کی پیش کش کو قبول کرکے طلاق دینے کا حق شوہر ہی کو حاصل ہے۔ لہٰذا جس طرح بیوی رقم کے بدلے طلاق حاصل کرنے پر راضی ہے اس طرح شوہر کا بھی رقم قبول کرکے طلاق دینے پر راضی ہونا ضروری ہے ۔ جمہور فقہاء کا اتفاق ہے کہ خلع باہمی رضامندی کے ساتھ جائز ہے۔‘‘ |