کے حق خلع کو تسلیم ہی نہیں کرتے۔ آپ ذرا تصور کیجیے! ایک عورت خاوند کے رویّے سے سخت نالاں ہے اور وہ اس سے ہر صورت خلاصی چاہتی ہے ، وہ طلاق کا مطالبہ کرتی ہے ، خاوند نے اس کو جو کچھ (حق مہر وغیرہ) دیا ہے ، وہ اس کو واپس کرنے کی پیش کش کرتی ہے لیکن وہ کسی صورت طلاق دینے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا۔ اب بتلائیے کہ اگر طلاق خاوند کی رضامندی کے بغیر نہیں ہوسکتی جیسا کہ علمائے احناف کہتے ہیں تو عورت کو اس کا حق خلع کون دلائے گا؟ آپ کہتے ہیں کہ عدالت مداخلت نہیں کرسکتی اور خاوند کی رضامندی کے بغیر علیحدگی ممکن ہی نہیں ہے تو اس صورت کا حل کیا ہے ؟ اور کیا یہ حق خلع کو تسلیم کرناہے؟ یہ تو اللہ کے عطا کردہ حق خلع کا صاف انکار ہے، خاوند کی ہٹ دھرمی ہی کا علاج عورت کے حق خلع کی صورت میں بتلایا گیا ہے جوصرف عدالت ہی عورت کو دلواسکتی ہے۔ عدالت کو اگر یہ حق نہیں ہے اور خاوند کسی صورت طلاق دینے کے لیے تیار نہیں ہے تو عورت کو اس کا یہ حق کس طرح ملے گا جو اللہ نے اسے عطا کیا ہے؟ حق خلع کے بارے میں علمائے احناف کی تصریحات اگر کوئی کہے کہ علمائے احناف کا یہ موقف نہیں ہوسکتا جو ان کی طرف منسوب کیا جارہاہے تو لیجیے انہی کے الفاظ میں ان کا موقف پڑھ لیجیے۔ مولانا تقی عثمانی صاحب پہلے عنوان قائم کرتے ہیں ۔ ’’کیا خلع عورت کا حق ہے ؟ ‘‘ مولانا موصوف نے اس بحث کا یہ عنوان مقرر کیا ہے ۔ اس سوالیہ عنوان ہی سے اس امر کی نشاندہی ہوجاتی ہے کہ ان کے نزدیک عورت کو حق خلع حاصل ہی نہیں ہے پھر فرماتے ہیں : ’’ہمارے زمانے میں خلع کے بارے میں ایک مسئلہ عصر حاضر کے متجددین نے پیدا کر دیا ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ تمام علمائے امت کا اس پر اتفاق رہا ہے کہ خلع ایک ایسا معاملہ ہے جس میں تراضیٔ طرفین ضروری ہے اور کوئی فریق دوسرے کو مجبور نہیں کرسکتا۔ لیکن ان متجددین نے یہ دعویٰ کیا کہ خلع عورت کا ایک حق ہے جسے وہ شوہر کی مرضی کے بغیر عدالت سے وصول کرسکتی ہے یہاں تک کہ پاکستان میں کچھ عرصہ پہلے عدالت عالیہ یعنی سپریم کورٹ نے اس کے |