Maktaba Wahhabi

44 - 143
تیسرا اثر، جس سے استدلال کیا گیا ہے، حسبِ ذیل ہے: ’’سیدنا عبداللہ بن عمر سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو اس کا اختیار دے دیا تو انھوں نے فرمایا: "القضاء ماقضت فإن تنا کراحلف" وہ عورت جو فیصلہ کرے گی وہی فیصلہ ہے، پھر اگر وہ دونوں ایک دوسرے کا انکار کریں تو مرد کو قسم دی جائے گی۔‘‘ [1] یہ اثر نقل کرکے فاضل مفتی حفظہ اللہ تحریر فرماتے ہیں : ’’یہاں پرچونکہ یہ اختیار نکاح نامے پر شوہر کے دستخطوں اورگواہوں کے ساتھ لکھا ہوا ہے، لہٰذا یہاں کسی قسم کے انکار کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘[2] لیکن اس اثر میں بھی پہلے قابل غور بات تو یہ ہے کہ اس میں بھی طلاق بالکنایہ والا مسئلہ ہی بیان ہوا ہے یا تفویض طلاق کا؟ واقعے پر غور فرما لیا جائے، اس میں بھی طلاق کنائی یا خیارِ طلاق ہی کا مسئلہ بیان ہوا ہے جس کا شادی کے بعد ہونے والے میاں بیوی کے درمیان شدید جھگڑے سے ہے کہ اگر اختلافات کا کوئی حل نہ نکلے تو خاوند اس کا یہی حل پیش کرے کہ تجھے اختیار ہے میرے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا۔ اس صورت میں ظاہر بات ہے کہ عورت جو فیصلہ کرے گی وہی نافذ ہو گا۔ علیحدگی پسند کرے گی تو طلاق ہو جائے گی، بصورتِ دیگر نہیں ۔ لیکن اس طلاق میں بھی فیصلہ کن بات خاوند کی نیت ہی ہے کہ طلاق رجعی ہے یا بائن؟ اس اثر سے بھی رشتۂ ازدواج میں جڑنے سے پہلے ہی نکاح کے موقعے پر مرد کا اپنے اس حق طلاق سے دست بردار ہو کر، جو اللہ نے اسے عطا کیا ہے، عورت کو اس کا مالک بنا دینا، کس طرح ثابت ہوتا ہے؟ میاں بیوی کے درمیان عدمِ موافقت کی صورت میں ان کے اختلافات دور کرنے کے کئی طریقے ثابت ہیں ۔ ایک یہ ہے جو قرآن کریم میں بیان ہوا ہے کہ ایک ثالث (حَکَم)بیوی کی طرف سے اور ایک خاوند کی طرف سے مقرر کیے جائیں ، وہ دونوں کے بیانات سن کر فیصلہ کریں اور دونوں کی کوتاہیوں کو معلوم کرکے ان کو دور کرنے کی تلقین دونوں کو کریں ، اگر یہ ممکن نہ ہو تو وہ بطورِ وکالت ان کے درمیان علیحدگی کا فیصلہ کر دیں ۔ اس کو’’ توکیل بالفرقہ‘‘ کہا جاتا ہے، یہ وکالت کی وہ صورت ہے جو جائز ہے۔
Flag Counter