جاؤ، یا وہ اس (حق) کو اس بیوی کے گھر والوں کے حوالے کر دے، پھر وہ اسے قبول کر لیں تو یہ ایک (طلاق) بائن (نکاح کو ختم کر دینے والی) ہے۔‘‘ اس اثر میں غور کریں ، کیا اس کا تعلق زیر بحث تفویض طلاق سے ہے؟ قطعاً نہیں ۔ اس میں بھی وہی خیارِ طلاق (طلاقِ کنائی) یاتوکیل کی صورت ہے کہ اختلاف اور جھگڑے کی صورت میں خاوند بیوی کو اختیار دے دے کہ اگر تو میرے پاس رہنے کے لیے تیار نہیں ہے تو تجھے اختیار ہے کہ تو خود میرے ساتھ رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ کر لے۔ اگر وہ علیحدگی کا فیصلہ کر لیتی ہے تو مذکورہ اثر کی بنیاد پر اسے طلاق ہو جائے گی اور بقول عبداللہ بن مسعود یہ ایک طلاق بائن ہو گی۔ یہ خیارِ طلاق سے ملتی جلتی وہی صورت ہے جس کی تفصیل آیتِ تخییر کے ضمن میں گزری ہے یا یہ طلاق بالکنایہ ہے کیونکہ یہ طلاق کون سی ہو گی؟ یہ خاوند کی نیت پر منحصر ہے جیسا کہ آگے تفصیل آرہی ہے۔ دوسری صورت اس میں توکیل کی ہے، یعنی بیوی کے گھر والوں کو طلاق دینے کا حق دے دے اور وہ طلاق دے دیں ، تو طلاق بائن ہو جائے گی۔ وکالت کو بھی شریعت نے تسلیم کیا ہے، یعنی خاوند خود طلاق نہ دے بلکہ وکیل کے سپرد یہ کام کر دے، تو وہ طلاق خاوند ہی کی طرف سے تسلیم کی جائے گی۔مذکورہ اثر میں یہی دو صورتیں بیان ہوئی ہیں ۔ ایک صورت خیارِ طلاق کی سی ہے بلکہ یہ طلاق بالکنایہ ہے اور دوسری توکیل طلاق کی۔ اس اثر سے زیر بحث تفویض طلاق کا اثبات ہرگز نہیں ہوتا۔ دوسرا اثر، جس سے استدلال کیاگیا ہے، حسب ذیل ہے: ’’سیدنا عثمان کے پاس وفد میں ابوا لحلال العسکی رحمہ اللہ آئے، تو کہا: ایک آدمی نے اپنی بیوی کو اس کا اختیار دے دیا ہے؟ اُنھوں نے فرمایا: ’’فأمرها بیدها ‘‘پس اس عورت کااختیار اس کے پاس ہی ہے۔‘‘ [1] میں بھی وہی خیارِ طلاق بلکہ طلاق بالکنایہ کا اثبات ہے جس سے کسی کو اختلاف نہیں ، یعنی لڑائی جھگڑے کی صورت میں عورت کو علیحدگی کا اختیار کنائے کی صورت میں دے دینا، اس اثرکا بھی تفویض طلاق کے مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ |