کہ میں یہ مطالبات پورے نہیں کر سکتا، اگر تو انھی حالات کے ساتھ گزارا کر سکتی ہے تو ٹھیک ہے، بصورتِ دیگر میں طلاق دیکر اچھے طریقے سے تجھے فارغ کر دیتا ہوں ۔ اگر عورت دوسری (طلاق کی) صورت اختیار کرتی ہے تو اسے طلاق نہیں ہو جائے گی بلکہ خاوند اس کی خواہش کو پورا کرتے ہوئے طلاق دے تبھی طلاق، یعنی علیحدگی ہو گی۔ اس صورت کا تفویض طلاق سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے اس آیت سے استدلال یکسر غلط اور بے بنیاد ہے۔ 2.أَمْرُكِ بِیَدِكِ (تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے)؟ اس سے ملتی جلتی ایک دوسری صورت یہ ہے کہ جھگڑے کے موقع پر خاوند عورت کو یہ کہہ دے : أَمْرُكِ بِیَدِكِ (تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے) اس سے بھی بعض لوگوں نے تفویض طلاق کے جواز پر استدلال کیا ہے۔ حالانکہ یہ طلاق کنائی کی ایک صورت بنتی ہے۔ اور اکثر فقہاء اس کے جواز کے قائل ہیں لیکن یہ تفویض نہیں بلکہ طلاق ہے۔ نیز اوّل تو یہ الفاظ نہ مرفوعاً ثابت ہیں اور نہ موقوفاً، یعنی یہ نہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور نہ کسی صحابی کا قول[1]یہ الفاظ جامع ترمذی، سنن ابی داود اور سنن نسائی میں منقول ہیں ۔ ان سب کی سندیں ضعیف ہیں تاہم اسے حسن بصری رحمہ اللہ کا قول قرار دیا گیا ہے۔ (اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے) البتہ بعض صحابہ کے ان الفاظ سے ملتے جلتے الفاظ سے بھی استدلال کیا گیا ہے، مثلاً: المعجم الکبیر للطبرانی (9/379،9627)میں حضرت عبداللہ بن مسعود کا قول ہے: (إذا قال الرجل لامرَأته: أمركِ بیدكِ أو استفلحي بأمرك أووهبها لأهلها فقبلوها فهي واحدة بائنة) [2] ’’اگر آدمی اپنی بیوی سے کہے: تیرا اختیار تیرے ہاتھ میں ہے ، یا تم اپنے معاملے میں کامیاب ہو |