چند شبہات و اشکالات کا ازالہ 1.بعض علماء آیتِ تخییر سے تفویض طلاق کا جواز ثابت کرتے ہیں ، حالانکہ ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔ آیتِ تخییر سے مراد وہ واقعہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اَزواجِ مطہرات کے درمیان پیش آیا کہ جب فتوحات کے نتیجے میں مالِ غنیمت کی و جہ سے مسلمانوں کی معاشی حالت قدرے بہتر ہوئی تو ازواجِ مطہرات نے بھی اپنے نان و نفقہ میں اضافے کا مطالبہ کر دیا جو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسند نہ آیا۔ اس موقعے پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ﴿ یأَيُّهَا النَّبِىُّ قُل لِأَزوٰجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِدنَ الحَيوٰةَ الدُّنيا وَزينَتَها فَتَعالَينَ أُمَتِّعكُنَّ وَأُسَرِّحكُنَّ سَراحًا جَميلًا﴾ سورۃ الاحزاب:33:28 ’’اے پیغمبر! اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے: اگر تم دنیا اور اس کی زینت کی طالب ہو، تو آؤ میں تمھیں کچھ متعہ (فائدہ) دے کر تمھیں اچھے طریقے سے چھوڑ دیتا ہوں ، یعنی طلاق دے دیتا ہوں ۔‘‘ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہ سمیت تمام ازواجِ مطہرات کو اختیار دے دیا کہ تم دنیا چاہتی ہو یا آخرت؟ اگر دنیا کی آسائشیں مطلوب ہیں تو میں تمھیں طلاق اور کچھ متعۂ طلاق دے کر آزاد کر دیتا ہوں لیکن سب نے دنیا کے مقابلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حبالۂ عقد ہی میں رہنے کو پسند کیا۔ یہ آیتِ تخییر کہلاتی ہے۔ اس سے تفویض طلاق کا اثبات نہیں ہوتا کیونکہ اس میں تو اُن کے مطالبات کے جواب میں اُنھیں یہ اختیار دیا گیا کہ اگر تمھیں اپنے مطالبات پورے کرانے پراصرار ہے تو میں زبردستی تمھیں اپنے ساتھ رکھنے پر مجبور نہیں کرتا، میں تمھیں طلاق دے دیتا ہوں ، قرآن کے الفاظ واضح ہیں ’’آؤ میں تمھیں متعہ ٔطلاق اور طلاق دے کر چھوڑ دیتا ہوں ۔’’ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اگر وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہنے کے بجائے دنیا کی آسائشیں پسند کرتیں تو آپ ان کو طلاق دے کر اپنے سے جدا کر دیتے۔از خود ان کو طلاق نہ ہوتی۔ اس سے مستقل طور پر عورت کو طلاق کا حق تفویض کرنے کا اثبات ہرگز نہیں ہوتا۔ اس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورت اگر کچھ ایسے مطالبات پیش کرے جس کو خاوند پورا نہ کر سکتا ہو تو وہ بیوی سے یہ کہے |