Maktaba Wahhabi

40 - 143
اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے مقررہ حصہ ہائے وراثت میں تبدیلی کرنا، اللہ کی حدوں سے تجاوز اور اللہ رسول کی نافرمانی ہے جس کی کسی کو اجازت نہیں۔ اسی طرح اللہ نے طلاق اور خلع کے احکام بیان کرکے فرمایا: ﴿ تِلكَ حُدودُ اللّٰهِ فَلا تَعتَدوها ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدودَ اللّٰهِ فَأُولـٰئِكَ هُمُ الظّـٰلِمونَ ﴾سورۃ البقرۃ 2:229 ’’یہ اللہ کی حدیں ہیں ، سو تم اُن سے تجاوز نہ کرو اور جو اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا، وہ لوگ ظالم ہیں ۔‘‘ اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ طلاق و خلع کے احکام، حدود اللہ کی حیثیت رکھتے ہیں ، ان میں تبدیلی کرنا، یعنی عورت کو حق خلع کے بجائے، جوکہ اسے اللہ نے دیا ہے، طلاق کا حق تفویض کر دینا،حدود اللہ میں تجاوز کرناہے جس کا حق کسی کو حاصل نہیں ، یہ سراسر ظلم ہے جو اللہ کو ناپسند ہے۔ چنانچہ آیت مذکورہ: (تِلكَ حُدودُ اللّٰهِ فَلا تَعتَدوها)کے تحت مولانا عبدالماجد دریا آبادی مرحوم نے لکھا ہے اور کیا خوب لکھا ہے: ’’یہ تاکید ہے اس امر کی کہ احکامِ شرعی میں کسی خفیف جزئیہ کو بھی ناقابل التفات نہ سمجھا جائے اور شریعت جیسے بے انتہا منظم فن میں ہونا بھی یہی چاہیے تھا۔ مشین جتنی نازک اور اعلیٰ صَنّاعی کا نمونہ ہو گی، اسی قدر اس کا ایک ایک تنہا پرزہ بھی اپنی جگہ پر بے بدل ہو گا۔‘‘[1] بنابریں عورت کو طلاق کا حق تفویض کرنا، امر باطل ہے۔ اس سے حکم شریعت میں تبدیلی لازم آتی ہے، مرد کا جو حق ہے وہ عورت کو مل جاتا ہے اور عورت جو مرد کی محکوم ہے، وہ حاکم (قواّم) بن جاتی ہے اور مرد اپنی قوّامیت کو (جو اللہ نے اسے عطا کی ہے) چھوڑ کر محکومیت کے درجے میں آ جاتا ہے، یا بالفاظِ دیگر عورت طلاق کی مالک بن کر مرد بن جاتی ہے اور مرد عورت بن جاتا ہے کہ بیوی اگر اسے طلاق دے دے تو وہ سوائے اپنی بے بسی اور بے چارگی پہ رونے کے کچھ نہیں کر سکتا ﴿ تِلكَ إِذًا قِسمَةٌ ضيزىٰ ﴾ ( سورة النجم:22)
Flag Counter