چنانچہ حضرت عائشہ نے حضرت بریرہ کو قیمت ادا کرکے آزاد کر دیا اور اس کے مالکوں نے ولاء کی شرط کر لی کہ وہ ہمارا حق ہو گا۔ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (الولاء لمن أعتق و إن اشترطوا مائة شرط) [1] ’’حق ولاء آزاد کرنے والے کا ہے، چاہے مالک سو شرطیں لگا لیں ۔‘‘ ایک اور مقام پر آپ کا یہ فرمان بایں الفاظ منقول ہے: (مابال رجال یشترطون شروطا لیست في کتاب الله؟ ماکان من شرط لیس في کتاب اللّٰه فهو باطل وإن کان مائة شرط، قضاء الله أحق وشرط اللّٰه أوثق وإنما الولاء لمن أعتق) [2] ’’لوگوں کا کیا حال ہے، وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جو اللہ کی کتاب میں نہیں ؟ (یاد رکھو) جو شرط ایسی ہو گی جو اللہ کی کتاب میں نہیں ہے، وہ باطل ہے اگرچہ سو شرطیں ہوں ۔ اللہ کا فیصلہ زیادہ حق دار ہے (کہ اس کو مانا جائے) اور اللہ کی شرط زیادہ مضبوط ہے (کہ اس کی پاسداری کی جائے) ولاء اسی کا حق ہے جس نے اسے آزاد کیا۔‘‘ اس حدیث میں آپ نے واشگاف الفاظ میں اعلان فرما دیا کہ جو شرط بھی کتاب اللہ میں نہیں ہے، یعنی شریعتِ اسلامیہ کی تعلیمات کے خلاف ہے، وہ باطل ہے اور باطل کا مطلب کالعدم ہے، اس کا کوئی اعتبار نہیں ۔ علاوہ ازیں اللہ تبارک تعالیٰ نے احکامِ وراثت بیان فرما کر ان کی بابت کہا کہ یہ اللہ کی حدیں ہیں اور اس کے بعد فرمایا ﴿ وَمَن يَّعصِ اللَّهَ وَرَسولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدودَهُ يُدخِلهُ نارًا ﴾ (سورۃ النساء4:14) ’’جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کرے گا اور اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا تو اللہ اسے آگ میں داخل کرے گا۔‘‘ |