مطلب یہ ہے کہ شریعت کے عطا کردہ کسی حق کو ختم کرنے کی شرط عائد کی جائے گی تو اُس کا اعتبار نہیں ہو گا۔ بلکہ اس قسم کی شرطوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح طور پر فرما دیا ہے: والمسلمون على شروطهم إلاشرطا حرم حلالا أو احل حراما[1] ’’مسلمانوں کے لیے اپنی طے کردہ شرطوں کی پابندی ضروری ہے، سوائے اس شرط کے جو کسی حلال کو حرام یا کسی حرام کو حلال کر دے۔ (ایسی شرطیں کالعدم ہوں گی)۔‘‘ نکاح کے موقع پر تفویض طلاق کی شرط بھی، شرطِ باطل ہے جس سے مرد کا وہ حق جو اللہ نے صرف مرد کو دیا ہے، وہ اس سے ختم ہو کر عورت کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ مرد کے اس حق شرعی کا عورت کی طرف انتقال، حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دینے ہی کے مترادف ہے جس کا کسی کو حق حاصل نہیں ہے۔ اس شرط سے عور ت کو طلاق دینے کا حق قطعاً حاصل نہیں ہو سکتا، اُس کو اس قسم کے حالات سے سابقہ پیش آئے تو وہ، شرط کے باوجود، طلاق دینے کی مجاز نہیں ہو گی بلکہ طلاق لینے، یعنی خلع کرنے ہی کی پابند ہو گی۔ عہدِ رسالت کا ایک واقعہ اور فیصلہ کن فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مسئلے میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کا ایک واقعہ ہماری بڑی رہنمائی کرتا ہے۔ بریرہ ایک لونڈی تھی اور مُکاتَبَہ تھی، یعنی مالکوں کے ساتھ اس کا معاہدہ ہو چکا تھا کہ اتنی رقم تو ادا کر دے گی تو ہماری طرف سے آزاد ہے۔ بریرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: اُمّ المومنین! آپ مجھے خرید کر آزاد کر دیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا انے فرمایا: ٹھیک ہے۔ بریرہ نے کہا: لیکن میرے آقا کہتے ہیں کہ حق وَلاءان کا ہو گا۔(ورثاء کی عدم موجودگی میں وراثت وغیرہ کے حق کو وَلاَء کہاجاتاہے)۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: مجھے حق ولاء کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سن لی یا آپ تک پہنچ گئی تو آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنھسے فرمایا: ( اشتریها فأعتقیها ودعیهم یشتر طوا ماشاؤا) ’’اُس کو خرید کر آزاد کر دے اور مالکوں کو چھوڑ، وہ جو چاہے شرط کر لیں ۔‘‘ |