Maktaba Wahhabi

35 - 143
بنابریں اسلام کا یہ قانونِ طلاق بھی دراصل عورت کے مفاد ہی میں ہے، گو عورت آج کل پروپیگنڈے کا شکار ہو کر اس کی حکمت کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ مرد کے حق طلاق کے مقابلے میں عورت کے لیے حق خلع تاہم اسلام چونکہ دین فطرت اور عدل و انصاف کا علم بردار ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس دوسرے پہلو کو بھی ملحوظ رکھا ہے کہ کسی وقت عورت کو بھی مرد سے علیحدہ ہونے کی ضرورت پیش آسکتی ہے، جیسے خاوند نامرد ہو، وہ عورت کے جنسی حقوق ادا کرنے پر قادر نہ ہو، یا وہ نان ونفقہ ادا کرنے پر قادر نہ ہو، یا قادر تو ہو لیکن بیوی کو مہیا نہ کرتا ہو، یا بلاو جہ اس پر ظلم و ستم یا مار پیٹ سے کام لیتا ہو، یا عورت اپنے خاوند کو ناپسند کرتی اور محسوس کرتی ہو کہ وہ اس کے ساتھ نباہ یا اس کے حقوقِ زوجیت ادا نہیں کر سکتی۔ ان صورتوں یا اِن جیسی دیگر صورتوں میں عورت خاوند کو یہ پیشکش کرکے کہ تو نے مجھے جو مہر اور ہدیہ وغیرہ دیا ہے، وہ میں تجھے واپس کر دیتی ہوں تو مجھے طلاق دے دے، اگر خاوند اس پر رضا مند ہو کر اُسے طلاق دے دے تو ٹھیک ہے لیکن اگر خاوند ایسا نہیں کرتا تو اسلام نے عورت کو یہ حق دیا ہے کہ وہ عدالت یا پنچایت کے ذریعے سے اس قسم کی صورتوں میں خاوند سے گلوخلاصی حاصل کر لے، اِس کو خلع کہتے ہیں ۔ یہ قرآنِ کریم اور احادیث نبویہ سے ثابت ہے، اس کی تفصیل یہاں ممکن نہیں ، راقم کی کتاب’’خواتین کے امتیازی مسائل‘‘میں اس کے دلائل تفصیل سے مذکور ہیں ۔ عورت کے اس حق خلع کی موجودگی میں اس بات کی ضرورت ہی نہیں رہتی کہ نکاح کے موقعے پر مرد اپنا حق طلاق عورت کو تفویض کرے، کیونکہ اسلام نے عورت کے لیے بھی قانونِ خلع کی صورت میں مرد سے علیحدگی کا طریقہ بتلا دیا ہے اور عہدِ رسالت میں بعض عورتوں نے اپنا یہ حق استعمال بھی کیا ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بحیثیتِ حاکم وقت خلع کا فیصلہ ناپسندیدہ خاوند سے علیحدگی کی صورت میں فرمایا ہے جس کی تفصیل صحیح احادیث میں موجود ہے۔ علمائے احناف کا فقہی جمود،خلع کا انکار لیکن بدقسمتی سے قرآن و حدیث کے مقابلے میں آرا الرجال کو زیادہ اہمیت دینے والے علماءو فقہاء، اسلام کے اس قانونِ خلع کو تسلیم نہیں کرتے، اس لیے فقہ حنفی میں مذکورہ صورتوں میں سے کسی بھی صورت
Flag Counter