میں عورت کے لیے مرد سے گلوخلاصی حاصل کرنے کا جواز نہیں ہے، اس کا اعتراف مولانا تقی عثمانی صاحب (دیوبندی) نے بھی کیا ہے۔[1] مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم نے بھی مذکورہ کتاب اسی لیے تحریر فرمائی تھی کہ عورتوں کی مشکلات کا کوئی حل، جوکہ فقہ حنفی میں نہیں ہے، تلاش کیا جائے، چنانچہ اُنھوں نے کچھ فقہی جمود توڑتے ہوئے دوسری فقہوں کے بعض مسائل کو اختیار کرکے بعض حل پیش فرمائے اور دیگر علمائے احناف کی تصدیقات بھی حاصل کیں ۔اس کے باوجود علمائے احناف کا جمود برقرار ہے کہ جب تک خاوند کی رضا مندی حاصل نہ ہو، عورت کے لیے علیحدگی کی کوئی صورت نہیں ۔[2] حالانکہ عورت کو حق خلع دیا ہی اس لیے گیا ہے کہ خاوند راضی ہو یا راضی نہ ہو، عورت عدالت یا پنچایت کے ذریعے سے علیحدگی اختیار کر سکتی ہے اور عدالت کا فیصلہ طلاق کے قائم مقام ہو جائے گا۔ فقہائے احناف کی شریعت سازی شریعت کے دیے ہوئے حق خلع کو تو فقہائے احناف نے تسلیم نہیں کیا جو ایک ناگزیر ضرورت ہے، البتہ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اپنی طرف سے یہ طریقہ تجویز کیا کہ عورت کو حق طلاق تفویض کر دیا جائے جو حکم الٰہی میں تبدیلی اور شریعت سازی کے مترادف ہے، حالانکہ عورت کو حق طلاق دینے میں جو شدید خطرات ہیں ، وہ مسلمہ ہیں اور اُنہی کے پیش نظر اللہ عزوجلّ نے یہ حق عورت کو نہیں دیا۔ قابل غور امر یہ ہے کہ جو حق اللہ نے نہیں دیا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں دیا تو وہ اور کون سی اتھارٹی ہو سکتی ہے جو یہ حق عورتوں کو دے دے؟ یقیناً ایسی کوئی اتھارٹی نہ ہے اور نہ ہو سکتی ہے، اس لیے اس تفویض طلاق کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگر کوئی عورت انسانوں کے اپنے تفویض کردہ اس حق کو استعمال کرتے ہوئے اپنے خاوند کو طلاق دے دیتی ہے تو اس طرح قطعاً طلاق واقع نہیں ہو گی۔ نکاح ایک میثاقِ غلیظ (نہایت مضبوط عہد) ہے جو حکم الٰہی کے تحت طے پاتا ہے، اسے خود ساختہ طریقے سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ عہد اسی وقت ختم ہو گا جب اس کے ختم کرنے کا وہ طریقہ اختیار کیا جائے گا جو خود اللہ نے بتلایا ہے اور وہ طریقہ صرف اور صرف |