Maktaba Wahhabi

33 - 143
مسائل‘‘ مطبوعہ دارالسلام میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ اگر عورت کو بھی طلاق کا حق مل جاتا تو وہ اپنا یہ حق نہایت جلد بازی یا جذبات میں آکر استعمال کر لیا کرتی اور اپنے پیروں پر آپ کلہاڑا مار لیا کرتی۔ اس سے معاشرتی زندگی میں جو بگاڑ اور فساد پیدا ہوتا، اس کا تصور ہی نہایت روح فرسا ہے۔ اس کا اندازہ آپ مغرب اور یورپ کی اُن معاشرتی رپورٹوں سے لگا سکتے ہیں جو وہاں عورتوں کو حق طلاق مل جانے کے بعد مرتب اور شائع ہوئی ہیں ۔ ان رپورٹوں کے مطالعے سے اسلامی تعلیمات کی حقانیت اور عورت کی اس کمزوری کا اثبات ہوتا ہے جس کی بنا پر مرد کو تو حق طلاق دیاگیا ہے لیکن عورت کو یہ حق نہیں دیا گیا۔ عورت کی جس زود رنجی، سریع الغضبی، ناشکرے پن اور جذباتی ہونے کا ہم ذکر کر رہے ہیں ، احادیث سے بھی اس کا اثبات ہوتا ہے۔ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (ورأیت النار فإذا أکثر أهلها النساء یکفرن ،قیل: أیکفرن بالله؟ قال:یکفرن العشیر و یکفرن الإحسان، لوأحسنت إلٰى إحداهن الدهر ثم رأت منك شیئا، قالت: ما رأیت منك خیرقط) [1] ’’میں نے جہنم کا مشاہدہ کیا تو اس میں اکثریت عورتوں کی تھی (اس کی و جہ یہ ہے کہ) وہ ناشکری کا ارتکاب کرتی ہیں ۔ پوچھا گیا: کیا وہ اللہ کی ناشکری کرتی ہیں ؟ آپ نے فرمایا: (نہیں ) وہ خاوند کی ناشکری اور احسان فراموشی کرتی ہیں ۔ اگر تم عمر بھر ایک عورت کے ساتھ احسان کرتے رہو، پھر وہ تمہاری طرف سے کوئی ایسی چیز دیکھ لے جو اسے ناگوار ہو تو وہ فوراً کہہ اُٹھے گی کہ میں نے تو تیرے ہاں کبھی بھلائی اور سکھ دیکھا ہی نہیں ۔‘‘ جب ایک عورت کی افتادِ طبع اور مزاج ہی ایسا ہے کہ وہ عمر بھر کے احسان کو مرد کی کسی ایک بات پر فراموش کر دیتی ہے تو اسے اگر حق طلاق مل جاتا تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس آسانی کے ساتھ وہ اپناگھر اُجاڑ لیا کرتی؟ عورت کی اس کمزوری، کم عقلی اور زود رنجی ہی کی و جہ سے مرد کو اس کے مقابلے میں صبرو ضبط، تحمل اور
Flag Counter