دے دیں ۔ علمائے احناف اور دیگر فقہا تو اس تفویض طلاق کو صحیح سمجھتے ہیں اور اس کی و جہ وہ فقہی جمود ہے جس میں وہ مبتلا ہیں ، اس لیے عدمِ دلیل کے باوجود وہ اس بنا پر اس کے قائل ہیں کہ ان کے فقہانے اس کو تسلیم کیا ہے۔ بنابریں وہ عورت کے طلاق دینے کی و جہ سے میاں بیوی میں جدائی کو بھی ضروری قرار دیتے ہیں ۔لیکن بعض علمائے اہلحدیث بھی اس کے جواز کا فتویٰ دے دیتے ہیں ۔ غالباً انھوں نے مسئلے کا گہرائی سے جائزہ نہیں لیا یا عورتوں کے ’’حقوق‘‘ کے شور میں اس کی شاید ضرورت ہی محسوس نہیں کی اس لیے وہ بھی جواز کے قائل ہو گئے۔ راقم کے پاس بھی یہ استفسار آیا اور اس میں بعض علمائے اہلحدیث کی طرف سے اس کے اثبات کا حوالہ بھی دیا گیا۔ اس بنا پر ضرورت محسوس ہوئی کہ مسئلے کی نوعیت کو شرعی دلائل کی روشنی میں واضح اور منقح کیا جائے تاکہ ایک طرف مسلک ِتفویض کے حامل علمائے احناف کے دلائل کی بے ثباتی واضح ہو جائے اور جو علما محض بعض شبہات کی و جہ سے اس کے جواز کے قائل ہیں ، وہ بھی اپنے موقف پرنظرثانی کرکے صحیح دلائل پر مبنی موقف کو اختیار کر سکیں۔ بہرحال ہمارا موقف یہ ہے کہ عورت کو طلاق کا حق تفویض نہیں کیا جا سکتا اور اگر کسی نے اس کو یہ حق دے دیا اور عورت نے اسے استعمال کرتے ہوئے خاوند کو طلاق دے دی، تو یہ طلاق نہیں ہوگی۔ طلاق کا حق صرف مرد کو حاصل ہے، یہ حق اللہ نے صرف اُسے ہی عطا کیا ہے، اسے پوری اُمت مل کر بھی عورت کی طرف منتقل کرنے کی مجاز نہیں ہے۔ اس کے دلائل حسب ِذیل ہیں : اسلام میں طلاق کا حق صرف مرد کو دیا گیا ہے، عورت کو نہیں ۔ اس کی و جہ یہ ہے کہ عورت مرد کے مقابلے میں زود رنج، زود مشتعل اور جلد بازی میں جذباتی فیصلہ کرنے والی ہے، نیز عقل اور دوراندیشی میں کمزور ہے۔ عورت کو بھی حق طلاق دیے جانے کی صورت میں ، یہ اہم رشتہ جو خاندان کے استحکام و بقا اور اس کی حفاظت و صیانت کے لیے بڑا ضروری ہے، تارِعنکبوت سے زیادہ پائیدار ثابت نہ ہوتا۔ علمائے نفسیات و طبیعیات بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں ۔ اس کی تفصیل راقم کی کتاب’’خواتین کے امتیازی |